Maktaba Wahhabi

372 - 645
عورتوں کو شامل ہے۔اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان تمام عورتوں کو ان کا حق مہر ادا کیا جائے۔بخلاف اس عورت کے جسے دخول سے پہلے ہی طلاق ہوجائے؛ اور اس سے کوئی لطف نہ اٹھایا گیا ہو۔ اس لیے کہ ایسی عورت صرف آدھے مہر کی حق دار ہوتی ہے؛ پورے مہر کی نہیں ۔ یہ بالکل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے: ﴿وَ کَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَ قَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾۔[النساء ۲۱] ’’اور تم لے بھی کیسے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔‘‘ ٭ اس آیت کریمہ میں عقد ِنکاح کیساتھ ایک دوسرے سے لطف اندوزی کو استقرار مہر کا موجب قرار دیا ہے۔اس سے واضح ہوا کہ اس میں اجرت کی ادائیگی کو نکاح ِ مؤبد کو چھوڑ کو نکاح مؤقت کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ بلکہ نکاح مؤبد میں پورا مہر ادا کرنا یہ زیادہ اولی ہے۔تو ضروری ہوا کہ آیت بھی نکاح مؤبد پر دلالت کرتی ہو۔ خواہ یہ دلالت بطور تخصیص کے ہو یا بطور عموم کے۔ ٭ اس کی یہاں سے بھی ملتی ہے کہ نکاح کے بعد لونڈیوں کا ذکر کیا گیا ہے؛ تو اس سے معلوم ہوا کہ جوکچھ اس سے پہلے بیان گزرا ہے وہ مطلق طور پرآزاد عورتوں سے نکاح کے متعلق تھا۔ [اعتراض]: اگر کوئی یہ بات کہے کہ : ایک قرأت میں یوں بھی آیا ہے:﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ اِلیَ اَجَلٍ مُّسَمّٰی﴾ ’’پھر ان میں سے جن سے تم لطف اٹھاؤ ایک مقررہ وقت تک ۔‘‘[1]
Flag Counter