Maktaba Wahhabi

397 - 645
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَتِلْکَ الجنۃُ الَّتِیْ اُوْرِثْتُمُوْہَا بما کنتم تعملون﴾ (الزخرف:۷۲) ’’یہ وہ جنت ہے جس کے وارث تمہیں بنایا گیا ہے؛ ان اعمال کی وجہ سے جو تم کرتے تھے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَاَوْرَثَکُمْ اَرْضَہُمْ ودیارہم و أرضاً لم تطؤوہا﴾ (الاحزاب: ۲۷) ’’ اور تمہیں ان کی زمینوں اور دیار کا وارث بنایا ؛ اور اس زمین کا بھی جیسے ابھی تم نے نہیں روندا۔‘‘ (یہاں پر وراثت سے مراد بادشاہی وخلافت ارضی ہے)۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَائُ من عبادہ والعاقبۃ للمتقین ﴾ (الاعراف:۱۲۸) ’’بے شک زمین اﷲ کی ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بنائے؛ اور اچھا انجام کار اہل تقوی کے لیے ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ في مشارق الأرض و مغاربہا التي بارکنا فیہا ﴾ (الاعراف: ۱۳۷) ’’ہم نے اس زمین کے مشرق و مغرب کا؛جس میں ہم نے برکت دی تھی؛ کا وارث اس قوم کو بنایا جس کو ضعیف سمجھا جاتا تھا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ وَ لَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ﴾ ’’ اور بلاشبہ یقیناً ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ بے شک یہ زمین، اس کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے۔‘‘(الانبیاء۱۰۵) محدث ابو داؤد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک انبیاء علیہم السلام کسی کو درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے، بلکہ علمی ورثہ عطا کرتے ہیں ۔جس نے یہ علمی ورثہ لے لیا اس نے بہت بڑا حصہ پالیا ۔‘‘[1] ایسے ہی خلافت کا لفظ بھی ہے۔ اسی لیے میت کے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی خلیفہ کہتے ہیں ۔ یعنی اس نے اپنے ترکہ میں فلاں پیچھے[اپنا خلیفہ ] چھوڑا۔ [اس لحاظ سے ] خلافت کبھی مال میں ہوتی ہے ‘ اور کبھی علم میں ہوتی ہے ‘ اور کبھی
Flag Counter