Maktaba Wahhabi

418 - 645
مرتکب ہونے پر بھی کفر و فسق سے بچ جائیں؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ستانا اس لیے بڑا گناہ ہے کہ اس سے ان کے والد محترم کو دکھ پہنچتا ہے۔ کسی معاملہ میں جب یہ سوال پیدا ہو جائے کہ آیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایذا دینے سے احتراز کیا جائے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ستم رانی کرنے سے۔ تو ظاہر ہے کہ اندریں صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء سے دست کشی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اذیت کی نسبت واجب تر ہو گی۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (انبیاء کی عدم توریث ) ایک حکم دیا تھا اور یہ دونوں اصحاب اس کی خلاف ورزی کرکے آپ کو ایذا پہنچانے سے امکانی حد تک کنارہ کش رہنا چاہتے تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عہد لیا تھا؛ اور ان کو اس بارے میں ایک حکم دیا تھا ۔ یہ دونوں حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی سے بچنا چاہتے تھے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی حکم عدولی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوں یا آپ کو کوئی تکلیف پہنچے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی رعایت کرنا زیادہ اہم تھا[یعنی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کا حکم دیں اور سیدہ فاطمہ اس کے برخلاف مطالبہ کریں تو حکم رسول کی مراعات اولیٰ ہو گی۔ ہر سلیم العقل آدمی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ] آپ کی اطاعت گزاری واجب ؛جب کہ نافرمانی حرام ہے۔اور اگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے کسی کو دکھ پہنچتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور آپ کی اطاعت کرنے والا حق اور راہ راست پر ہے۔ یہ اس صورت سے مختلف ہے جب کوئی شخص اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے نہیں بلکہ کسی ا ور مقصد کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ستائے۔ جو شخص اس بات پر غور کرے گا کہ مذکورہ واقعہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقصد صرف نبی کریم رضی اللہ عنہ کی اطاعت تھی اور اس کے سوا کوئی بات آپ کے پیش نظر نہ تھی تو وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقدام کے مقابلہ میں اکمل وافضل ہے۔ تاہم دونوں کی عظمت وفضیلت میں کلام نہیں ۔ آپ دونوں اکابر اولیاء اﷲ سابقین اولین اور اﷲ کے مقربین؛کامیابی پانے والی اللہ کی جماعت [حزب اللہ] میں سے ‘ اور اللہ کے نیک بندے اکابر متقین میں سے تھے جو حوض تسنیم سے سیراب ہوں گے۔[ان شاء اللہ تعالیٰ]۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’اﷲ کی قسم!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت ذاتی قرابت کی نسبت مجھے عزیز تر ہے۔‘‘[1] یہ بھی آپ ہی کا قول ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا خیال رکھیے۔‘‘[2] مقصود یہ ہے کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رنج و الم پہنچایا تھا تو یہ مانناپڑے گا کہ آپ نے کسی ذاتی غرض کے تحت ایسا نہیں کیا تھا، اس کی اصل وجہ اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، نیز یہ جذبہ اس کا محرک تھا کہ حق دار کو حق مل کر رہے۔ [3]
Flag Counter