Maktaba Wahhabi

420 - 645
سے سرتابی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘[1] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اس حدیث کی توضیح فرمائی: ’’ کسی کی اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘[2] جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امراء کی اطاعت کو مطلق بیان کیا ‘ اور پھر اسے اس شرط کے ساتھ مقید کردیا کہ اطاعت صرف نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ہوگی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ِ مبارک کہ : ’’ جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایذا دی اس نے مجھے تکلیف دی۔‘‘ بالاولیٰ اذی فی المعروف پر محمول ہو گا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امراء کی اطاعت فرض ہے اور ان کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے، مگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایذا پہنچانے کا فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے مساوی نہیں ، ورنہ لازم آئے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امراء کی نافرمانی آپ کی نافرمانی ہے، اور آپ کے حکم سے سرتابی معصیت الٰہی ہے۔ پھر اعتراض کرنے والے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ : حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں ولی الامر تھے۔اللہ تعالیٰ نے ولی امر کی اطاعت کا حکم دیا ہے ۔ ولی امر کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت؛ اور اس کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ جو ولی امر کے حکم اور فیصلہ پر ناراض ہو‘ یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ پر ناراض ہے۔ پھر اعتراض کرنے والا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ : ’’ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کیا؛ اور اس کے فیصلہ پر ناراض رہے ۔ اور اس چیز کو ناپسندکیا جس پر اللہ راضی ہوگیا تھا۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو اس پر راضی ہوتا ہے کہ اس کی اور اس کے ولی امر کی اطاعت کی جائے۔ پس جو کوئی ولی امر کی اطاعت کو نا پسند کرتا ہے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کو نا پسند کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی پر ناراض ہوتا ہے؛ اور ولی امر کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔پس جو کوئی ولی امر کی معصیت کی اتباع کرے یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے پیچھے چلتا ہے۔اور اللہ کی رضا مندی کو نا پسند کرتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر یہ جرح کرنا روافض کے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پرجرح کرنے کی نسبت زیادہ معقول و مقبول ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے وارد ہونے والی نصوص میں ولاۃ امور [حکمرانوں ] کی اطاعت اور مسلمان کی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور [اگر ان حکمرانوں کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر] صبر کرنے کا حکم دیا گیا
Flag Counter