Maktaba Wahhabi

433 - 645
یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری شروع ہونے سے پہلے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو علم عطا کیا تھا۔ پھر جب آپ بیمار ہوگئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں ۔ تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال تک امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔بالفرض اگر یہ تسلیم کرلیاجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری سے پہلے آپ کو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد کے لیے جانے کاحکم دیا تھا ۔تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم دینا ؛ حالانکہ آپ نے بیماری میں بھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانگی کی اجازت دے رکھی تھی؛ تو یہ بعد والا حکم پہلے حکم کے لیے ناسخ ہوگا؛ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت منسوخ ہوگئی۔تو یہ کہنا کیسے روا ہوسکتا ہے خصوصاً جب کہ آپ پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر ہی نہیں کیا گیا تھا؟ مزید برآں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ نہیں تھی کہ کسی سریہ کے لیے یا پھر کسی غزوہ کے لیے نام لیکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو متعین کریں ۔ لیکن آپ مطلق طور پر ترغیب دیا کرتے تھے۔ توصحابہ کرام کو کبھی علم ہوتا تھا کہ آپ نے نام لیکر کسی کو اپنے ساتھ جانے کے لیے متعین نہیں کیا ‘لیکن خروج برائے جہاد کی ترغیب دی ہے ؛ جیسا کہ غزوہ غابہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی تھی [1]اور کبھی کبھار بعض لوگوں کو ان کے خاص احوال کی وجہ سے متعین کرتے تھے ۔ جیسا کہ غزوہ بدر کے موقع پر آپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ لوگ نکلیں جن کے پاس سواری ہو۔ اسی وجہ سے بہت سارے مسلمان آپ کے ساتھ نہ جاسکے۔ اور غزوہ سویق کے موقع پر آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ : ’’ صرف وہی لوگ جہاد کے لیے نکلیں جو کہ احد میں شریک ہوئے تھے ۔‘‘ بسااوقات عام کوچ کا حکم ہوتا تھا ؛ جس میں کسی کو پیچھے رہنے کی اجازت نہ ہوتی تھی جیسا کہ تبوک کے موقع پر ہوا۔
Flag Counter