Maktaba Wahhabi

461 - 645
اس باب میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ: جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کا حق تھا ‘ ایسے ان کی مدد نہیں کی گئی۔ چونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ معاملہ آپ کے قتل تک نہیں پہنچے گا۔[1] اس لیے انھوں نے آپ کی عملی مدد کرنے میں سہل انگاری سے کام لیا۔اگر انہیں اس بات کا یقین ہوتا کہ معاملہ اتنا خطرناک ہوجائے گا تووہ ضرور آپ کے دفاع میں کھڑے ہوجاتے اور اس فتنہ کو روک لیتے ۔ بس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے : ﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ﴾ [الأنفال۲۵] ’’اوراس فتنہ سے بچو!جوتم میں سے خاص کر صرف ظالموں پر واقع نہ ہوگا....‘‘ اس لیے کہ جب ظالم انسان لوگوں پر ظلم کرتا ہے ؛ تواس کی وجہ سے لوگ فتنہ و آزمائش کا شکار ہوجاتے ہیں ‘ اور وہ لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جن کااس ظلم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس وقت بڑے بڑے لوگ اس فتنہ کو رد کرنے سے عاجز آجاتے ہیں ۔اس کے برعکس اگر ظالم کو شروع سے ہی روک دیا جائے تو اس فتنہ کا سدباب ہوسکتا ہے ۔ تیسری وجہ :....رافضی انتہائی سخت جھوٹے اور بہت بڑے تناقض کا شکارہیں ۔یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ اجماع [2]
Flag Counter