Maktaba Wahhabi

501 - 645
کیااور نہ ہی اس کو جائز و حلال سمجھا۔ کیونکہ اس کے نتیجہ میں وہ قتل و غارت گری اور دنگا و فساد پیدا ہوتے ہیں ؛ جو کہ ظالم حکمران کے ظلم پر صبر کرنے سے بڑھ کر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ۔ تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی چیز کا حکم کیونکر دے سکتے ہیں جس کا نقصان اس کے فائدہ سے بڑھ کر ہو؟ [دوسرااعتراض] : باقی رہا رافضی کا [حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ] قول ’ ’ طلیق بن طلیق۔‘‘ [جواب ]:اس میں مذمت کی کوئی بات نہیں ۔ اس لیے کہ فتح مکہ کے روز جو لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، انھوں نے خلوص دل سے دین کو قبول کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [انہیں قیدی نہیں بنایا تھا بلکہ] سب کو آزاد کردیا تھا۔ان کی تعداد بارہ سو کے لگ بھگ تھی۔ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو بعد میں بہترین مسلمان ثابت ہوئے ؛مثلاً حارث بن ہشام اور ان کا بھتیجا حضرت عکرمہ، سہیل بن عمرو[1] صفوان بن امیہ، یزید بن ابی سفیان، حکیم بن حزام؛ابو سفیان ابن الحارث ابن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زادتھے ؛یہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتے تھے بعد میں بہترین مسلمان ثابت ہوئے۔ اور عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کا والی مقرر کیا۔ ان کے نظائر و امثال
Flag Counter