Maktaba Wahhabi

509 - 645
جو جماعت ظلم و تعدی کی مرتکب ہو اس سے لڑا جائے۔ان لوگوں سے ابتداء میں ہی؛ ان کی طرف سے جنگ شروع کرنے سے پہلے لڑا گیاہے۔‘‘ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ او رامام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اگر مانعین زکوٰۃ کہیں کہ : ہم زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے ادا کریں گے ‘ ہم حاکم وقت کو زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔تو امام [حاکم] کے لیے ان سے جنگ کرنا جائز نہیں ۔ اسی بنا پر امام احمد اور امام مالک رحمہم اللہ اسے’’ جنگ فتنہ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ باغیوں سے اس وقت لڑنا جائز ہے جب وہ حاکم وقت کے خلاف نبرد آزما ہوں ۔‘‘ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جنگ کا آغاز نہیں کیا تھا۔بلکہ خوارج نے جنگ کا آغاز کیا۔جب کہ خوارج سے جنگ کرنا نص اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے والا کہے کہ : آپ اس بارے میں مجتہد تھے۔ تو فریق مخالف بھی کہہ سکتا ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس مسئلہ میں مجتہد تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ : آپ مجتہداور حق پر تھے ۔ تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ : معاویہ بھی مجتہد اور حق پر تھے۔لوگوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مجتہد برحق کہتے ہیں ۔اسکی بنیاد یہ ہے کہ ہر اجتہاد کرنے والا حق پر ہوتا ہے۔یہ امام اشعری رحمہ اللہ کا قول ہے۔ ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے مگر خطاء پر تھے۔مجتہد کی خطاء قابل مغفرت ہے۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے : ان دونوں میں سے ایک گروہ حق پر تھا ‘ مگر یہ پتہ نہیں کہ کون سا گروہ حق پر تھا۔ یہ اقوال امام احمد کے شاگرد ابو عبد اللہ بن حامد نے ذکر کئے ہیں ۔ لیکن خود امام صاحب اور ان کے امثال ائمہ سے منصوص یہ ہے کہ اس جنگ سے لڑائی کاترک کرنا بہتر تھا۔ یہ لڑائی فتنہ کی جنگ تھی۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اس عرصہ میں اسلحہ فروخت کرنے سے منع کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے :’’ فتنہ میں اسلحہ نہیں بیچا جاسکتا ۔‘‘یہ قول حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ؛ محمد بن مسلمہ ؛ ابن عمر ؛ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کا ہے۔اور اکثر ائمہ فقہ و حدیث نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔اورکرامیہ کہتے ہیں : بلکہ دونوں حضرات امام برحق تھے اور [1]
Flag Counter