Maktaba Wahhabi

519 - 645
انہوں نے حق بات تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ اور نہ ہی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہوجانے کی وجہ سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ اس قتل[ میں شریک یا پھر اس] پر موافق تھے۔ بعض لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ بھی عذر پیش کیے ہیں کہ: ۱۔ آپ ان لوگوں کو متعین طور پر نہیں جانتے تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیاتھا۔ ۲۔ یا آپ یہ سمجھتے تھے کہ ایک آدمی کے بدلہ میں ایک پوری جماعت کو قتل نہیں کیا جاسکتا ۔ ۳۔ آپ کے پاس مقتولین کے وارثوں نے قصاص کا مطالبہ نہیں کیا ‘ جس کی روشنی میں قاتلین میں پکڑا جاتا ۔ ایسے عذر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔حقیقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اتنی قوت حاصل نہ ہوسکی تھی کہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرتے۔ اگر ایسے ہوتا بھی تو اس سے مزید فتنہ وفساد اوربہت بڑا شر پھیل جاتا۔ جبکہ بڑے فساد سے بچنے کیلئے چھوٹے فساد کو قبول کرلینا یہ مصلحت کے زیادہ قریب ہے۔ اس لیے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پورا لشکر تھے۔ان کے پیچھے ان کے قبائل تھے جو ان کا دفاع کررہے تھے؛اور جو لوگ براہ راست قتل میں شریک ہوئے تھے ؛ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے قبائل کے سرکردہ لوگ تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ آپ کے قتل کرنے پر قادر نہ ہوسکتے تھے۔ جب حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما قاتلین عثمان کو قتل کرنے کے لیے بصرہ کی طرف چل پڑے تو اس وجہ سے جنگ بپا ہوئی جس میں بہت ساری خلقت قتل ہوئی۔ جس چیز سے یہ معاملہ مزید واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جمع ہوگئے تھے ؛ اور آپ مسلمانوں کے امیر عام بن گئے تھے ؛ مگر اس کے باوجود آپ نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جو لوگ باقی رہ گئے تھے ‘انہیں قتل نہ کرسکے ۔بلکہ یہ روایت کیا گیا ہے کہ: جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سفر حج کے لیے مدینہ پہنچے تو آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھرسے آوازیں سنیں : ہائے امیر المؤمنین ! ہائے امیر المؤمنین ! ۔‘‘ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے جو ان کے خون کا مطالبہ کررہی ہے ۔ آپ نے لوگوں کو اسی حال میں چھوڑا؛ اور خود اس کی طرف چلے گئے؛ اور یوں گویا ہوئے : اے میری چچا زاد!’’ لوگوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری اطاعت کی ہے ۔ اور ہم غصہ کے باوجود ان کیساتھ بردباری اور تحمل مزاجی کا سلوک کررہے ہیں ۔اگر ہم ان کے ساتھ بردباری نہ کریں تو وہ ہماری اطاعت ترک کردیں ۔ اور یہ کہ تم امیر المؤمنین کی بیٹی کی حیثیت سے عزت و اکرام کے ساتھ بیٹھو ‘ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل بن جاؤ ۔‘‘ آج کے بعد میں نہ سنوں کہ تم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یاد کیا ہے ۔‘‘ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جو کہ آپ کے قصاص کے طلب گار تھے؛ جو کہتے تھے کہ: آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال میں حق پر ہیں ؛ اس لیے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو قتل کرنا چاہتے تھے ؛ مگر جب آپ کو قدرت و اختیار
Flag Counter