Maktaba Wahhabi

530 - 645
یہ دونوں صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ایک متعین حکم ہوتاہے؛ جس میں ولی امر کو مصلحت کی بنا پرفیصلہ کا اختیارہوتاہے۔ اور اگراس کے علاوہ کوئی حکم ہوتا؛ تو اس کا حکم ظاہر میں نافذ ہو جاتا۔ پس جو کچھ قتال کے باب میں ہے؛ وہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک دو محبوب ترین کاموں میں سے ایک کا انتخاب کریں ۔ خواہ وہ فعل کا بجا لانا ہو یا ترک کرنا۔ اس کی وضاحت مصلحت یا خرابی کی بنا پر ہوتی ہے۔ پس جس چیز کا وجود اس کے عدم سے بہتر ہو؛ جس سے دین میں راجح مصلحت حاصل ہوتی ہو؛ تو یہی وہ چیز ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے خواہ وہ واجب ہو یا مستحب۔ اور جس چیز کا نہ ہونا اس کے وجود سے بہتر ہو؛ تو وہ نہ ہی واجب ہوتی ہے اور نہ ہی مستحب ۔ اگرچہ اس کا اجتہاد کرنے والا اجتہاد کرنے پر ماجور ہے۔ جنگ اس گروہ سے ہوتا ہے جس کے پاس قوت ہو۔ پھر اگر وہ عدل کے ساتھ صلح پر راضی ہو جائیں ؛ تو اب وہ رکاوٹ پیدا کرنے والے باقی نہیں رہتے؛ توان سے قتال کرنا بھی جائز نہیں رہتا ۔اگرچہ وہ باغی ہی کیوں نہ ہوں ۔ یقیناً ان سے قتال کا حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف نہ لوٹ آئیں ؛ فرمایا: ﴿ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ﴾ (الحجرات) ’’ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو ۔‘‘ جیسا کہ جب ان کے مابین لڑائی کی ابتداء ہو تو ان کے مابین صلح کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وقوع فتنہ کے وقت ارشاد فرمایا تھا: ’’ لوگوں نے اس آیت پر عمل کو ترک کردیا ۔‘‘اور یہ بالکل ویسے ہی ہوا تھا جیسے آپ نے فرمایا۔ اس لیے کہ جب ان دونوں گروہوں کے مابین جنگ شروع ہوئی تو صلح نہیں کروائی گئی ۔اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آپ باغی گروہ سے جنگ کر رہے تھے؛ تب بھی ان سے جنگ اس وقت کرنا تھی کہ وہ اللہ کے حکم پر لوٹ آئیں ۔ اور پھر ان کے مابین عادلانہ صلح کرادی جاتی۔اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹنے تک جنگ کرو؛ جب وہ لوٹ آئیں تو ان کے مابین صلح کرادو۔ صرف لڑائی کا ہی حکم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ ﴾ (الحجرات) ’’ تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے ۔‘‘ وہ اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف رجوع ہو جائیں ؍ لوٹ آئیں تو قتال رونما نہ ہوتا ؛ اگر یہ امر تقدیر میں ہوتا تو قتال نہ ہوتا ؛ جب آپ کو اس سے عاجز کر دیا گیاتھا تو پھر وہ اس حکم کا مخاطب نہیں رہے تھے۔ یوم احد میں جب جنگ کا تقاضا مسلمانوں کی فتح تھی؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے گناہ کی وجہ سے یہ سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ ایسے ہی حنین کے موقع پر میدان جہاد سے فرار اختیار کرنا گناہ کا کام تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ایک گروہ کسی دوسرے گروہ پر زیادتی کرے ؛ اور زیادتی کرنے والے کے ظلم سے بغیر جنگ کے دفاع ممکن ہو ؛ تو پھر اس صورت میں جنگ کرنا جائز نہیں رہتا۔ اگر بغاوت یا زیادتی کا ازالہ وعظ یا فتوی ؛ یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے
Flag Counter