Maktaba Wahhabi

551 - 645
صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔‘‘[سبق تخریجہ ] صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ جب حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مشرکین کے نام خط لکھا تھا؛تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اجازت دیجیے ؛ میں اس کی گردن اڑادیتا ہوں ۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حاطب رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شرکت کر چکا ہے؛ اور تمہیں کیا پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا ہے :((اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ۔))’’جو اعمال چاہو انجام دو میں نے تمھیں بخش دیا۔‘‘[اس کی تخریج گزر چکی ہے ]۔ ایسے ہی صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ کچھ مسلمانوں نے حضرت مالک بن دخشن کے بارے میں کہا: وہ منافق ہوگیا ہے۔‘‘تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار کیا ؛ مگر ان کو کافر نہیں کہا ۔‘‘[1] ایسے ہی صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ عبداللہ الحمار پر کسی نے کثرت مے نوشی کی وجہ سے لعنت کی ؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار کیا ؛ اور فرمایا : ’’بیشک یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ مگر آپ نے تأویل کی بنا پر لعنت کرنے والے پر کوئی عتاب نہیں کیا۔ ‘‘[2] خطا کار متأول کتاب و سنت کی روشنی میں مغفور لہ ہے۔ اﷲتعالیٰ مومنوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿رَبَّنَا لَا تُوَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَانَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶) ’’اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول یا چوک ہو جائے تو ہم پر مواخذہ نہ کر۔‘‘ ایسے ہی صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے ایساکردیا۔‘‘ ایسے ہی سنن ابن ماجہ اور دیگر کتب میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے میری امت کے خطأ اور نسیان کو معاف کردیا ہے ۔‘‘[3]
Flag Counter