Maktaba Wahhabi

567 - 645
بعد ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا وہ بھی شہید ہوگئے۔[یہ بیان کرتے ہوئے ]آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔ اس کے بعد اﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (حضرت خالد رضی اللہ عنہ ) نے جھنڈے کو تھاما تو اﷲتعالیٰ نے فتح مرحمت فرمائی۔‘‘[1] اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ [2]کے علاوہ اور کوئی شخص سیف اﷲ نہیں ہو سکتا، بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’سیوف اﷲ‘‘ اور بھی ہیں ۔اور آپ ان جملہ تلواروں میں سے ایک ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ کی نسبت زیادہ کفار کو جہنم واصل کیا۔ آپ غزوات میں ہمیشہ نیک فال رہے۔ فتح مکہ سے پہلے اور واقعہ حدیبیہ کے بعد اسلام لائے ؛ آپ ‘ عمرو بن العاص اور شیبہ بن عثمان نے بیک وقت اسلام قبول کیا اور ہجرت کی سعادت حاصل کی ۔آپ جب سے اسلام لائے اسی وقت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سپہ سالار مقرر کرنا شروع کیا۔آپ نے غزوہ مؤتہ میں شرکت کی ۔جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’تمہارا امیر زید ہوگا۔اگر وہ قتل کردیے جائیں تو پھر جعفر ؛ اور اگر وہ بھی قتل ہوجائیں تو پھر عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ۔‘‘ یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے۔ اسی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر ان لوگوں کا نام نہیں ملتا۔ جب یہ امراء شہید کر دیے گئے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بغیر امارت کے جھنڈا سنبھالا ۔تواللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر فتح دی ۔ غزوہ مؤتہ کے موقع پر آپ کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹیں ۔آخر میں ایک یمانی تلوار آپ کے ہاتھ میں باقی رہی۔‘‘[3] پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر امیر مقرر فرمایا؛ اور آپ کو عزٰی نامی بت گرانے کے لیے مہم پر روانہ فرمایا ۔ اورپھر آپ کو بنی جذیمہ کی طرف روانہ فرمایا۔ اس کے علاوہ بھی کئی مہمات آپ کو تفویض کیں ۔اور کبھی کبھار آپ سے کوئی ایسا کام ہو جاتا جس کا انکار کیا جاتا۔جیسا کہ بنی جذیمہ کے موقع پر آپ سے ہوگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی جذیمہ کے ساتھ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے فعل سے اظہار براء ت کیا۔[4] البتہ انھیں معزول نہیں کیا۔بلکہ
Flag Counter