Maktaba Wahhabi

604 - 645
دوسرا مسند خلیفہ پر فائز ہو جائے؛ جیسا کہ ان لوگوں کا خیال ہے جو حکمرانوں کے خلاف تلوار چلانا جائز سمجھتے ہیں ۔ یہ ایک فاسد رائے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس رائے کی خرابیاں اس کی مصلحتوں سے بڑھ کر ہیں ۔ اور بہت ہی کم ایسے ہوتا ہے کہ کسی نے کسی شان و شوکت والے حکمران کے خلاف خروج کیا ہو؛ مگر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا شر اورفساد خیروبھلائی سے بہت زیادہ اور بڑا تھا۔ جیسے ان لوگوں کے ساتھ ہوا جنہوں نے مدینہ میں یزید کے خلاف خروج کیا تھا۔ اور جیسا کہ ابن اشعث جس نے عراق میں عبدالملک کے خلاف بغاوت کی تھی۔اور ابن مہلب ؛ جس نے خراسان میں اپنے بیٹے کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اور داعی ابو مسلم ؛ جس نے خراسان میں خروج کیا تھا۔ اوروہ لوگ جنہوں نے مدینہ اور بصرہ میں منصور کے خلاف خروج کیاتھا۔ اور ان کے امثال و ہمنوا دیگر لوگ ۔ ان کا انتہائی انجام یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو مغلوب ہو جائیں یا پھر غالب آجائیں ؛ لیکن پھر بھی ان کا ملک ختم ہی ہو جاتا ہے؛ اورانجام کار ان کے حق میں نہیں رہتا۔ عبداللہ بن علی اور ابو مسلم وہ دو اشخاص تھے جنہوں نے ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا۔ مگر آخر کار منصور نے ان دونوں کو قتل کردیا۔ اور اہل حرہ اور ابن اشعث اور ابن مہلب وغیرہ اوران کے ساتھی شکست کھا کر بھاگ گئے۔ نہ ہی وہ دین قائم کر سکے؛ اور نہ ہی دنیا کو باقی رکھ سکے۔ اگرچہ ایسا کرنے والے بہت بڑے متقی اولیاء اللہ اور اہل جنت میں سے ہو۔ وہ ہرگزحضرت علی اور حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم سے افضل نہیں ہوسکتا۔ مگر اس کے باوجود ان کے مابین جو جنگ ہوئی اس میں ان کا کوئی قابل تعریف کام نہیں تھا۔ حالانکہ ان کا مقام اللہ کے ہاں بہت بلند ہے؛ اور ان کی نیت بھی دوسرے لوگوں سے بڑھ صالح اور اچھی تھی۔ ایسے ہی اہل حرہ میں بہت سارے اہل علم اور دیندار لوگ موجود تھے۔ایسے ہی اشعث کے ساتھیوں میں بھی ایک بڑی تعداد اہل علم و دین لوگوں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے ؛ [آمین]۔ حضرت اما م شعبی رحمہ اللہ سے ابن اشعث کے فتنہ کی بابت پوچھا گیا: اس وقت آپ کہا ں تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ نہ ہی نیک اور متقی تھے؛ اور بدکردار اور طاقتور۔‘‘ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’ حجاج اللہ تعالیٰ کا ایک عذاب ہے؛ اور تم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے ہاتھوں سے ختم نہ کرو ؛ لیکن اس حالات میں تم پر گریہ و زاری اور انکساری واجب ہوتی ہے؛ بیشک اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿وَلَقَدْ اَخَذْنَاہُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّہِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَ ﴾ (المؤمنون ۷۶] ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انھیں عذاب میں پکڑا، پھر بھی وہ نہ اپنے رب کے آگے جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے تھے۔‘‘ حضرت طلق بن حبیب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’ تقوی اختیار کرکے فتنہ سے بچو۔‘‘تو آپ سے پوچھا گیا : کہ تقوی کی اجمالی تعریف بیان کریں ؛ تو آپ نے فرمایا:’’ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کے کام اس کے عطا کردہ نور کی روشنی میں کرو؛ اور اس کی رحمت کی امید رکھو؛ اور اللہ تعالیٰ کی معصیت اس کے نور کی روشنی میں ترک کردو؛ اوراللہ تعالیٰ کے
Flag Counter