Maktaba Wahhabi

618 - 645
’’ اوران صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دیجیے ‘ جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘ مسند أمام أحمد اور سنن ابن ماجہ میں حضرت فاطمہ بنت حسین، حضرت حسین سے روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس پر کوئی پریشانی آئی پھر وہ اس کو یاد کر کے ازسر نو (إِنا لِلّٰہِ وِإنا إِلیہِ راجِعون) کہے ؛خواہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اتنا ہی اجر لکھیں گے جتنا پریشانی کے دن لکھا تھا۔‘‘ [1] حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کی دختر محترمہ کی روایت اس قتل گاہ پر ایک گواہی اور شہادت ہے۔ بیشک قتل حسین رضی اللہ عنہ ایسی مصیبت ہے جسے یاد کرتے رہنا چاہیے بھلے جتنا لمبا زمانہ بھی گزر جائے۔ تو مسلمان کے لیے مشروع یہ ہے کہ اس موقع پر ازسر نو (إِنا لِلّٰہِ وِإنا إِلیہِ راجِعون) کہے ۔باقی جو کچھ دیکھنے میں آتا ہے اپنے چہرے پیٹنا؛ گریبان پھاڑنا ؛ اور جاہلیت کی طرح آہ و بکا کرنا ؛یہ ایسے امور ہیں جن کو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند کرتے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ میں ایسی حرکات حرام ہیں ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حرکات کے کرنے والوں سے برأت کا اظہار کیا ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو شخص(غمی و ماتم میں )اپنے رخساروں کو پیٹے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کے لوگوں کی طرح گفتگو کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘[سبق تخریجہ ] ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے اظہار برأت فرمایا: ’’مصیبت کے وقت آواز بلند کرنے والی سے ؛ پریشانی میں اپنا سر منڈوانے والی سے ؛ اور ماتم میں اپنا گریبان پھاڑنے والی سے۔ ‘‘[2] اور مسلم شریف کی صحیح روایت میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اس پر گندھک کا کرتا اور زنگ کی چادر ہو گی۔‘‘[3] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوحہ کرنے والی عورت کو پیش کیا گیا تو آپ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ آپ
Flag Counter