Maktaba Wahhabi

639 - 645
کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ تکبر اور غرور کی وجہ سے کہ بیت اللہ میں کوئی داخل نہ ہو سوائے ان لوگوں کے کہ جن کے لئے یہ چاہیں ۔ تو جب کوئی آدمی بیت اللہ میں داخل ہونے کو ارادہ کرتا تو وہ اسے بلاتے اور جب وہ داخل ہونے کے قرین ہوتا تو وہ اسے دھکا دیتے اور وہ گر پڑتا۔ عبدالملک نے حارث سے کہا :’’کیا تم نے یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ راوی کہتے ہیں کہ:’’ عبدالملک کچھ دیر اپنی لاٹھی سے زمین کریدتا رہا اور کہنے لگا کہ کاش کہ میں نے اس کی تعمیر کو اسی حال پر چھوڑ دیا ہوتا۔‘‘[صحیح مسلم:ج۲ : ح ۷۵۳] بخاری کی روایت میں ہے؛ یزید بن رومان کہتے ہیں : ’’ میں ابن زبیر کے پاس موجود تھا، جس وقت انہوں نے اس کو گرا کر بنایا اور حجر اسود کو اس میں داخل کیا۔ اور میں نے بنیاد ابراہیمی کے پتھر دیکھے، جو اونٹوں کی کوہان کی طرح تھے۔اور بیان کیا ہے کہ میں نے اندازہ کیا حجر اسود سے چھ گز یا اس کے قریب قریب تھا۔‘‘ میں کہتا ہوں : ابن عباس اور دوسری ایک کی رائے یہی تھی کہ اسے اسی طرح باقی رہنے دیا جائے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسے ہی باقی چھوڑا تھا۔ پھر جب حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے ؛ تو عبدالملک کی رائے یہ ہوئی کہ اسے دوبارہ اپنی پرانی ہئیت پر تعمیر کیا جائے۔ کیونکہ اس کا اعتقاد یہ تھا کہ جو کچھ ابن زبیر نے کیا ہے؛ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لیکن جب اسے یہ حدیث پہنچی تو اس نے تمنا کی تہی کہ کاش اگروہ اسے اسی حالت پر چھوڑ دیتا۔ پھر جب رشید کی خلافت کا زمانہ تھا تو اس نے حضرت مالک بن انس رحمہما اللہ سے مشورہ لیا کہ ایسے ہی کیا جائے جیسے ابن زبیر نے کیا تھا؟ تو آپ نے مشورہ دیا کہ : ایسے نہ کیا جائے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے فعل کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ تمام علماء اور حکمران جن کی جو بھی رائے تھی؛ وہ سبھی کعبہ مشرفہ کی تعظیم کرتے تھے۔ ان سب کا مقصد وہ کام تھا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک محبوب اور افضل ہو۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی مقصد خانہ کعبہ کی اہانت کرنا نہیں تھا۔ اور جس کسی نے یہ کہا ہے کہ: اللہ کی مخلوق میں سے کسی ایک نے خانہ کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا ؛ یا وہاں پر گند پھینکی تو اس نے یقیناً جھوٹ بولا۔ ایسا تو نہ ہی عہد جاہلیت میں ہوا ہے؛ اور نہ ہی اسلام میں ۔ اور جو لوگ کفار تھے خانہ کعبہ کا احترام نہیں کرتے تھے؛ جیسے اصحاب الفیل اور قرامطہ [شیعہ] ؛وہ بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرسکے۔ تو پھر مسلمان کیسے کرسکتے ہیں جو کعبہ کی تعظیم اور احترام کرنے والے لوگ ہیں ۔ مزید برآں اگریہ تصور کر لیا جائے کہ۔ العیاذ باللہ ۔ کوئی خانہ کعبہ کی اہانت کا قصد رکھتا تھا؛ اوروہ ایسا کرنے پر قادر بھی تھا؛ تو پھر بھی اسے منجنیق سے پتھر برسانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ اس کے بغیر بھی تخریب کاری کرنا اس کے لیے ممکن تھا۔ جیساکہ آخری زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ قیامت قائم کرنے کا ہوگا تو اس کے گھر کو تباہ کر دیا جائے گا۔
Flag Counter