Maktaba Wahhabi

75 - 645
جب یہ عقلِ صریح کے ذریعے معلوم ہے اور وہ اس کے موافق بھی ہیں ، بلکہ یہ ان کے قول کی اصل ہے۔ انہیں یہ کہا جائے گا کہ جو حوادث کو مستلزم ہو اس کا موجب بالذات سے صدور ممتنع ہے۔ کیونکہ حوادث رفتہ رفتہ وجود میں آتے ہیں ، اور جو رفتہ رفتہ وجود میں آتا ہو۔ اس کے اجزاء ازلیہ اور قدیمہ نہیں ہوتے، اور نہ موجب بالذات سے ان کا صدور ہوتا ہے۔ لہٰذا حواد کا موجب بالذات سے صدور ممتنع ٹھہرا، اور عالم کی کسی شے کا صدور حوادثِ لازمہ کے بغیر ممتنع ممتنع ہوا۔ کیونکہ لازم کے بغیر ملزوم کا وجود ممتنع ہے۔ لہٰذا ظاہر ہوا کہ فلک کا ازلی و قدیم ہونا ممتنع ہے، اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ ازل میں یہ حوادث سے خالی تھا، حوادث اس میں بعد میں پید اہوئے ہیں ۔ کیونکہ تب یہ کہا جائے گا کہ ان حوادث کا سبب ہونا بھی لازم ہے۔ لہٰذا ان میں بھی وہی قول ہے جو جو دوسرے حوادث میں ہے۔ پس اگر تو یہ جائز ہے کہ وہ سببِ حادث کے بغیر ہیں تو یہ فلک میں ممکن ہوا، اور ان کی حجت باطل ٹھہری، اور اس سے دو متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیں دینا لازم آیا، اور اگر حوادث کے لیے سبب لازم ہے تو حوادث کا تسلسل و دوام لازم آیا، اور یہ کہ فلک اور رب تعالیٰ کے سوا جملہ اشیاء ہمیشہ سے حوادث کے مقارن رہی ہیں ، اور ہر ممکن جو حوادث کے مقارن ہو اس کا موجب بالذات سے صدور ممکن نہیں ۔ لہٰذا خود اس حادث کا بھی قدیم ہونا ممتنع ٹھہرا۔ حوادث کو مستلزم کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے، اور یہ وہ ہے جو حوادث سے خالی نہ رہتا ہو، اور جسے اقترانِ حوادث لازم ہو۔ کیا اس کا حادث ہونا واجب ہے یا اس کے حدوث غیر واجب اور اس کا قدم جائز ہے۔ چاہے وہ واجب ما سوا سے غنی ہو، یا ممکن ہو، یا واجب بنفسہ اور ماسوا سے غنی کے درمیان اور ممکن، اور محتاج الی الغیر میں فرق کیا جائے گا۔ اس بارے تین اقوال ہیں : ۱۔ پہلا قول: یہ اُن اہلِ نظر و کلام کا قول ہے، جو فاعلیت ِ رب کے دوام کے امتناع کے، اور ازل میں رب تعالیٰ کے اپنی مشیئت و قدرت کے ساتھ فعل و تکلم کے امتناع کے قائل ہیں اور یہ کہ یہ ممکن نہیں ۔ ان لوگوں کے مستقبل میں رب تعالیٰ کی فاعلیت کے امکان کی بابت دو اقوال ہیں ۔ ۲۔ دوسرا قول: یہ ان فلاسفہ کا قول ہے جو ما سوی اللہ کے قدم کے قائل ہیں ۔ جیسے افلاک یا عقول یا دوسری اشیاء وغیرہ۔ یہ رب تعالیٰ کو موجب بالذات قرار دیتے ہیں ۔ جیسے عالم کی کسی شے کی تغییر یا اس کا اِحداث ممکن نہیں ۔ بلکہ ان کے قول کی حقیقت یہ ہے کہ حوادث اس سے صادر ہی نہیں ہوئے۔ بلکہ ان کا حدوث و صدور کسی محدث کے بغیر ہے۔ ۳۔ تیسرا قول: یہ ان آئمہ اہلِ ملل کا قول ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ رب تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے، اور رب تعالیٰ کے سوا ہر شے عدم سے وجود میں آئی ہے، اور یہ کہ رب تعالیٰ کی قادریت کو دوام ہے، اور وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہے، اور وہ اپنی ذات کے ساتھ قائم افعال کا فاعلِ ازلی ہے۔ فلاسفہ کے وہ آئمہ اور اساطین جو ارسطو سے پہلے ہو گزرے ہیں ، وہ ان کے اقوال کے موافق ہیں ۔ بخلاف ارسطو
Flag Counter