Maktaba Wahhabi

79 - 645
بنایا ہے۔ بلکہ اس میں قدرت پیدا کی ہے کہ چاہے تو وہ بولے اور چاہے نہ بولے۔ اور بندہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو حادث کرتا ہے، اور احداث کے بعد اور پہلے دونوں صورتوں میں اس کا حال یکساں ہے، اور وہ نطق پر رب تعالیٰ کی معونت اور تیسیر کے بغیر ناطق ہے۔ منکرین تقدیر یہ بھی کہتے ہیں :’’فرشتوں کا بندوں کے لیے طلب مغفرت کرنا، علماء کا لوگوں کو علم و فضل سے بہرہ ور کرنا اور حکام کا عدل و انصاف کے ساتھ معاملات طے کرناانعامات الٰہیہ میں شامل نہیں ہے۔ ان کی رائے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملوک و سلاطین کو عادل یا ظالم بنانے میں بندوں کی کوئی آزمائش نہیں ہے۔ ایک معروف اثر میں وارد ہے: رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ’’میں اللہ ہوں ، بادشاہوں کا مالک ہوں ، بادشاہوں کے دل اور ان کی پیشانیاں میرے ہاتھ میں ہیں ۔ جس نے میری اطاعت کی، میں انہیں اس پر مہربان بنا دوں گا، اور جس نے میری نافرمانی کی، میں انہیں اس پر انتقام بنا دوں گا۔ سو تم حکمرانوں کو برا بھلا کہنے میں مت لگو اور میری اطاعت کرو، میں ان کے دلوں کو تم پر مہربان کر دوں گا۔[1] اس قدری کے نزدیک اللہ ان ملوک کو نہ عادل بنانے پر قادر ہے اور نہ ظالم بنانے پر۔ نہ اس نے ان کو نیکو کار بنایا ہے اور نہہی بد کردار بنایا ہے۔ وہ اس بات پر بھی قادر نہیں کہ کسی کو کسی پر احسان کرنے والا بنائے یا کسی کو کسی کے حق میں بد کردار بنائے۔ ان کے نزدیک رب تعالیٰ اس بات پر بھی قادر نہیں کہ کسی کو کسی کے حق میں محسن بنانے کا احسان کرے۔ یا کسی کو کسی ذریعے تعذیب و اہانت میں مبتلا کرے۔ اس قدری کے قول کے مطابق رب تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو قوت والا نہیں بنایا کہ پھر وہ دیار و امصار میں دندناتے پھریں ۔ کہ اس نے نہ تو انہیں اس بات کاحکم دیا ہے اور نہ انہیں اس کا فاعل ہی بنایا ہے۔ بلکہ انہیں صرف قدرت دی ہے۔ اس طرح ان کے نزدیک اس نے شیطانوں کو ان کافروں پر نہیں بھیجا جو جا کر انہیں چوکا دیتے ہیں ۔ منکرین تقدیر کے مذکورہ بالا اقوال کا نتیجہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی حال میں بھی مدح و ستائش کا مستحق نہیں ، اس لئے کہ شکر اخروی انعامات پر ادا کیا جا سکتا ہے، یادینی انعامات پر یا دنیوی انعامات پر۔جہاں تک نعمت دنیاوی انعامات کا تعلق ہے؛ تو وہ ان لوگوں کے نزدیک رب تعالیٰ پر واجب ہیں ۔ اسی طرح ان نعمتوں کا حال ہے جو دینی ہیں جن پر وہ قادر ہے۔ جیسے رسولوں کا بھیجنا، قدرت کا پیدا کرنا وغیرہ۔ رہا نفس ایمان اور عمل صالح تو اس قدری کے نزدیک رب تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ وہ کسی کو مومن و مہتدی نیکو کار و متقی اور صالح بنائے اور نہ وہ ان امور میں سے کسی پر شکریہ کا مستحق ہے۔ جن کو اس نے نہیں کیا اور نہ اس قدری کے نزدیک اس نے ان امور پر قادر بنایا ہے۔ رہیں اخروی نعمتیں تو اس قدری کے نزدیک رب تعالیٰ پر جزاء دینا واجب ہے۔ جیسا کہ مستاجر پر اجیر کو اس کی اجرت دینا واجب ہوتا ہے۔ سو اس قدری کے نزدیک یہ باب عدل مستحق سے ہے نا کہ فضل و احسان کے باب سے اور
Flag Counter