Maktaba Wahhabi

108 - 421
آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کر دیا کریں تو ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ (بخاری: 1/312) ایسے غم گسار، غم خوار، ہمدرد اور ایثار و خلوص کے پتلے تو حقیقی اور سگے بھائی بھی نہیں ہوتے جیسے انصار مہاجرین کے لیے تھے۔ انصار کی اس بے مثال غم گساری اور ہمدردی کو دیکھ کر ایک دن مہاجرین نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! جس قوم میں ہم آئے ہیں، ہم نے ان سے زیادہ کسی قوم کو غمگسار، اور ایثار پیشہ نہیں دیکھا، ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں سارا اجروثواب یہی نہ لے جائیں اور ہم اس اجروثواب سے محروم اور خالی رہ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: "نہیں، جب تک تم ان کے لیے دعا کرتے رہو۔" (عیون الاثر: 1/322، مسند احمد: 3/200، 204، البدایہ والنہایۃ: 3/228) یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی مسلمان کا اپنی قوم، برادری یا قبیلہ کو محبت کرنا "عصبیت" نہیں ہے جس کی اسلام نے مذمت کی ہے بلکہ عصبیت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم اور برادری کے ظلم اور ناحق بات پر اس کی مدد کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ليس من العصبية ان يحب الرجل قومه، وانما العصبية ان يعين قومه علي الظلم) "عصبیت یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے بلکہ عصبیت یہ ہے کہ ظلم پر اپنی قوم کی اعانت کرے اور اس کا ساتھ دے۔" (رواہ ابوداؤد: 2/625، سنن کبریٰ بیہقی: 10/234) ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (خيركم المدافع عن عشيرته مالم يأثم) (رواہ ابوداؤد فی کتاب الادب، رقم: 5112) "تم میں وہ شخص بہتر ہے جو اپنے قبیلہ اور برادری کی حمایت کرے جب کہ وہ (برادری والے) کسی غلط کام میں ملوث نہ ہوں۔"
Flag Counter