Maktaba Wahhabi

132 - 421
اس کی خاطر نماز تہجد جیسی عظیم عبادت میں بھی تخفیف کر دی گئی۔ انسان یہ ساری جدوجہد اس وجہ سے کرے گا کہ جو کچھ وہ اپنی محنت سے کمائے وہ اس کی ملکیت میں ہو۔ اگر اس کی محنت کا نتیجہ اور ثمرہ کوئی دوسرا لے جانے تو کبھی بھی وہ محنت و کاوش میں دلچسپی نہیں لے گا۔ اس وجہ سے اس نے فرد کو حق ملکیت عطا کیا ہے۔ ملکیت کا حقیقت: ملکیت کی حقیقت جان لینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ملکیت سے کیا مراد ہے؟ اور ملکیت کس کو کہتے ہیں؟ ملکیت سے مراد کسی مال یا شے پر کسی فرد کا قبضہ اور اس شے یا مال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا حق ہے۔ علامہ مقدسی کے مطابق ملکیت انسان اور شے کے مابین وہ خصوصی تعلق ہے جو شرعاً دوسروں کے لیے اس شے یا مال سے استفادہ میں رکاوٹ اور اس انسان کے تصرف اور استعمال کے لیے وجہ جواز بنتا ہے، البتہ اگر کوئی مانع ہو تو یہ الگ بات ہے جیسے جنون وغیرہ۔ علامہ ابن نجیم نے لکھا ہے کہ "ملکیت کسی شے میں تصرف پر وہ قدرت اور حق ہے جو کسی انسان کے لیے شارع علیہ السلام کے ثابت کرنے سے ابتدائی طور پر ثابت ہے مگر یہ کہ کوئی مانع موجود نہ ہو۔ علمائے اسلام نے ملکیت کی تعریف میں اسی مفہوم کو ادا کیا ہے۔ چنانچہ قرانی نے لکھا ہے کہ: "ملک شریعت کی طرف سے کسی چیز میں یا کسی چیز کے نفع میں ایک ایسی اجازت ہے جس کا تقاضا ہوتا ہے کہ یہ شخص جس کو یہ اجازت حاصل ہے، خاص اس چیز سے یا اس کی منفعت سے نفع حاصل کرے یا اسی حیثیت میں کہ شریعت نے اجازت دی ہو، اس چیز کا یا اس کی منفعت کا بدل لے لے۔" (انوار البروق فی انواع الفروق: 3/244، بحوالہ المکیت فی الاسلام لسید ابی نصر احمد الحسینی) شارع بدایہ علامہ کمال بن الہمام فرماتے ہیں: "ملک تصرف کرنے کی وہ قدرت ہے جو شریعت نے بلا واسطہ ثابت کی ہو بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو یعنی ایسی قدرت کہ اگر کوئی شرعی (قانونی) رکاوٹ نہ ہو تو
Flag Counter