Maktaba Wahhabi

144 - 421
سے کم مرتبہ خیال کرو۔" جب انسان کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم اور ضرر کے دفعیہ کے لیے مال کو ڈھال اور بچاؤ کا سامان بنانے کی اجازت دی ہے۔ اور اس قسم کے معاملہ میں رشوت دینا ایک قسم کی حفاظتی تدبیر ہے۔ لہٰذا دینا درست ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جس وقت حبشہ میں تھے، آپ نے گلوخلاصی کے لیے دو دینار بطور رشوت دئیے، تب کہیں آپ کو رہائی ملی۔ اس وقت آپ نے فرمایا: (ان الاثم عليٰ القابض دون الدافع) (تفسیر قرطبی: 6/184، عون المعبود: 9/496) "لینے والا گنہگار ہے دینے والا نہیں۔" سچے، امانت دار، ثابت قدم، مقتدر اور بے نیاز افراد کو سرکاری کاموں کی ذمہ داری سونپنا ایک اہم دینی فریضہ ہے جس کو شریعت اسلامیہ اپنی بلند تر تعلیمات کے ذریعہ ہم پر واجب کرتی ہے۔ لیکن اس زمانہ میں رشوت کے ذریعہ لوگ پچھلے دروازوں سے اعلیٰ عہدوں اور بلند مرتبوں پر فائز ہو جاتے ہیں، اس لیے اسلام نے رشوت لینے والے، رشوت دینے والے اور درمیانی ایجنٹ کو جہنم کی بشارت دی ہے۔ (ردالمختار: 4/306) اس قسم کی رشوت کو بھی اسلام نے حرام قرار دیا ہے، اور ارشاد ربانی ہے: (إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ) (نساء: 58) "بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے سپرد کر دیا کرو۔ اور جب تم لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔" کسی منصب یا ملازمت کے حصول کے لیے رشوت دینا درحقیقت امانت کو نااہلوں کے سپرد کرنا ہے۔ اس سے حکم خداوندی کی مخالفت لازم آتی ہے۔ اس لیے کسی بھی منصب یا ملازمت کو حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا حرام ہے۔
Flag Counter