Maktaba Wahhabi

157 - 421
"سب سے زیادہ پاک کمائی تاجروں کی کمائی ہے بشرطیکہ وہ جب بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں، اور جب وعدہ کریں تو وعدہ خلافی نہ کریں اور جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں، اور جب کوئی سامان کسی سے خریدیں تو (تاجروں کی عادت کے مطابق) اس سامان کو برا اور خراب نہ بنائیں، اور جب اپنا سامان فروخت کریں تو واقعہ کے خلاف اس کی تعریف نہ کریں، اور جب ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو اس کو ٹالیں نہیں، اور جب ان کا قرض کسی کے ذمہ ہو تو اس کو تنگ نہ کریں۔" (حاشیہ تفسیر مظہری) اسلام نے تجارت کے لیے کچھ بنیادی اصول رکھے ہیں جو کاروبار کی صحت اور درستی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ 1۔ تجارت کا جواز چونکہ باہمی تعاون پر مبنی ہے لہٰذا تجارت کے تمام معاملات میں جانبین سے تعاون کا وجود ضروری ہے یعنی یہ نہ ہونا چاہیے کہ ایک فریق کی طرف سے تعاون ہو اور دوسرے کی طرف سے تعاون نہ ہو۔ 2۔ تجارت میں جانبین سے حقیقی رضا کا وجود ضروری ہے، اضطراری رضا معتبر نہیں کیونکہ قرآن نے باہمی رضا مندی کی شرط لگائی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ: (نهي رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم عن بيع المضطر) (ابوداؤد، کتاب البیوع) "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبردستی اور جبر کی بیع سے منع فرمایا۔" حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ جبری اور اضطراری رضا کو اسلامی نقطہ نظر سے غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: "اس لیے کہ "مفلس" مضطر اور مجبور ہوتا ہے کہ جس شے کے پورا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا اس کو اپنی بے چارگی کی وجہ سے اپنے ذمہ واجب کر لیتا ہے، اور یہ رضا ہرگز حقیقی رضا نہیں ہے۔ پس سود جیسا معاملہ ناپسندیدہ معاملات میں سے ہے اور نہ کاروبار کے صالح اور درست معاملات میں سے ہے، اور بلاشک و شبہ
Flag Counter