Maktaba Wahhabi

200 - 421
اسی طرح سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو قاضی بنا کر یمن بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "جب تمہارے پاس مقدمات آئیں تو تم کیونکر حکم (فیصلہ) کرو گے؟" انہوں نے عرض کی: "میں کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔" فرمایا: "اگر کتاب اللہ میں تم اس کا حکم نہ پاؤ تو؟" عرض کی: "پھر میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔" اب سوال کیا: "اگر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی تم اس کا جواب نہ پاؤ؟" سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "ایسی صورت میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوتاہی نہ ہونے دوں گا۔" سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے منہ سے یہ جواب سن کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور خوشی اور مسرت سے تمتما اٹھا۔ آپ نے خوشی سے ان کے سینہ پر پیار سے ہاتھ مارا اور فرمایا: "سب تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول کو اس بات کی توفیق دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ہے۔ (سنن ابی داؤد: 2/149، سنن دارمی: 2/78، مسند احمد بن حنبل: 5/230، سنن کبریٰ بیہقی: 10/114) ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "جو شخص مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ الفاظ، اشارات اور ان کو بٹھانے وغیرہ میں عدل اور مساوات سے کام لے۔" (رواہ الدارقطنی والطبرانی والبیہقی، الفتح الکبیر: 3/145) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص دو مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ان دونوں میں سے ایک سے اونچی آواز سے مخاطب نہ ہو اگر وہ دوسرے سے اونچی آواز سے مخاطب نہیں ہوا۔ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الفتح الکبیر: 3/145) اگر حاکم خود فریق مقدمہ ہو تو اس کو بھی اپنے آپ کو پیش کر دینا چاہیے۔ چنانچہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو سیدھا فرما رہے تھے اور ان کے ہاتھ میں نیزہ کی ایک لکڑی تھی جس سے آپ لوگوں کو صف میں سیدھا فرما رہے تھے۔ سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ صف میں سے ذرا ہٹے ہوئے تھے۔ آپ نے وہ لکڑی ان کے پیٹ میں چبھوئی اور فرمایا: "سواد! سیدھے کھڑے ہو۔" سواد رضی اللہ عنہ نے کہا: "یا رسول اللہ! آپ
Flag Counter