Maktaba Wahhabi

262 - 421
گئی۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے چار بیویوں پر اکتفا کی اجازت دی ہے وگرنہ اسلام سے پہلے تو لوگوں کی چار سے بہت زیادہ بیویاں ہوتی تھیں۔ اسلام نے ان کو کم کر کے چار کر دی ہیں اور ان کے ساتھ بھی شرط عدل عائد کر دی ہے۔ چنانچہ غیلان بن سلمہ ثقفی اسلام لائے تو ان کی زمانہ جاہلیت میں دس بیویاں تھیں۔ وہ بھی اس کے ساتھ مسلمان ہو گئیں، تو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ وہ ان میں سے چار کو انتخاب کر لیں۔ (سنن ترمذی، رقم: 1131، ابن ماجہ، رقم: 1953، ابن حبان: 9/463، سنن کبریٰ بیہقی: 7/181) اور قیس بن حارث بیان کرتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہوا تو میری آٹھ بیویاں تھیں۔ میں نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اس کو بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان میں سے چار کو اختیار کر لو۔ (سنن ابن ماجہ، رقم: 1952، ابوداؤد: 2242، سنن کبریٰ بیہقی: 7/183، معجم صغیر: 3/51) اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کے لیے عدل کی شرط نہ صرف قرآن حکیم میں ہے بلکہ احادیث میں بھی ہے۔ اس لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنا اور ان میں عدل نہ کرنا قابل مواخذہ ہے، گناہ کی بات ہے، اور ایک مسلمان کے لیے گناہ کی بات ہونا ہی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ قاضی ابوبکر بن العربی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: "ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں چند بیویوں کے حقوق نہ ادا کرنے کی اور سب کے ساتھ مساویانہ اور عدل پر مبنی برتاؤ نہ کر سکنے کا خطرہ ہو تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو۔ کیونکہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا فرض ہے، اور شرعی احکام ظاہری حالات کے اعتبار سے متعلق ہوتے ہیں کیونکہ یہی بات ہر ذی عقل کے لیے آسان ہے۔ اس اصل کا تقاضا یہ ہوا کہ جو شخص بھی بظاہر جسمانی قوت اور مالی وسعت اتنی رکھتا ہے جس سے چار بیویوں کے پورے حقوق ادا کر سکے، اسی کو اجازت ہے کہ وہ ایسا کرے، اور جو جسمانی قوت اور مالی اعتبار سے اس کا تحمل نہیں کر سکتا اسے صرف اس تعداد پر اکتفا کرنا چاہیے جس کا وہ بآسانی تحمل کر سکتا ہو۔" (احکام القرآن: 1/130)
Flag Counter