Maktaba Wahhabi

278 - 421
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو کسی مشرک کے ساتھ دارالحرب میں رہے، اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لا ترايا نارهما) (رواہ ابوداؤد، رقم: 2645، والنسائی فی القسامۃ، باب 27) "ان دونوں قسم کے لوگوں کی آگ میں امتیاز نہیں ہوتا۔" "لا ترايا نارهما" کے علماء نے کئی معنی لکھے ہیں، ایک یہ کہ ان دونوں کا حکم ایک ہے۔ دوسرا یہ کہ جب اللہ تعالیٰ دارالاسلام اور دارالکفر میں امتیاز پیدا کر دے تو مسلم کو دارالکفر یا دارالحرب میں رہنا جائز نہیں۔ مسلم اور غیر مسلم آبادی میں فرق ہونا چاہیے تاکہ دونوں کی آگ اور اس کا دھواں واضح طور پر نظر آئے نہ یہ کہ مسلم اس میں رہ کر ان کی آگ کا جلنا دیکھا کرے۔ نار کا معنی علامت بھی ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ مسلمان کو کافر سے مشابہت نہ رکھنی چاہیے، ان جیسی چال ڈھال، رفتار و گرفتار اور نشست و برخاست اختیار نہ کرے بلکہ ممتاز رہے۔ 3۔ مسلمان کا وہ مکان غضب شدہ زمین میں نہ ہو۔ چنانچہ حدیث میں سیدنا زید بن سعید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (من احيا ارضا ميته فهي له، وليس لعرق ظالم حق) (رواہ الترمذی، رقم: 1378) "جو کسی بنجر زمین کو آباد کرے وہ اس کی ہے، اور ظالم رگ کا کوئی حق نہیں ہے۔" ظالم رگ والے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک بنجر اور غیر آباد بنجر زمین کو آباد کیا۔ اب دوسرے شخص نے زبردستی اس میں زراعت کر دی، تو اس ظالم کا اس زمین میں کوئی حق نہ ہو گا بلکہ اس کی کھیتی اکھاڑ کر پھینک دی جائے گی، اور مالک زمین پر اس کا معاوضہ بھی لازم نہ ہو گا۔ ظالم تو کھیتی کرنے والا تھا مگر مجازاً اس کھیت کو ظالم کہہ دیا جیسے قریۃ ظالمۃ ہے۔
Flag Counter