Maktaba Wahhabi

336 - 421
بدکار مرد سے کر دی جائے یا نیک مرد کی شادی ایک بدکار عورت سے کر دی جائے تو دونوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بدکار مرد اور بدکار عورت نیک عورت اور نیک مرد کا کفوء اور برابر نہیں، اور ان دونوں کے نکاح کے نتیجہ میں زندگی کے خوش گوار لمحے تلخ ہو جاتے ہیں۔ آج کل لوگوں نے کفوء کا اعتبار صرف نسب میں کیا ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خاندانوں کے معاشرتی اختلافات کی وجہ سے عملی زندگی میں مختلف پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں، لیکن شریعت میں کفؤ نسبی کا کوئی اعتبار نہیں۔ بعض دفعہ بڑے بڑے خاندانوں کے چشم و چراغ اتنی کمینی اور ذلیل حرکتیں کرتے ہیں کہ چھوٹے خاندانوں کے لوگ انہیں دیکھ کر تعجب کرتے ہیں۔ اس لئے عہد نبوی اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں نسبی کفؤ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں "باب الاکفاء فی الدین" میں دو ایسے واقعات نقل کئے ہیں جن میں میاں بیوی کے مابین کوئی نسبی کفوء اور برابری نہیں تھی۔ اس پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بڑی بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ نسب میں کفؤ معتبر نہیں بلکہ کفؤ فی النسب میں شدت اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، کیوں کہ شعوب و قبائل کو دنیا میں باہمی تعارف کا ذریعہ بنایا گیا ہے، اور نکاح کے لئے دین اور اخلاق کو معیار بنایا گیا ہے، بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر ان دونوں چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز یعنی مال و دولت اور حسب و نسب کو معیار بناؤ گے تو روئے زمین میں فتنہ و فساد کے چشمے ابل پڑیں گے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: "بنی فلاں کی اولاد میرے اولیاء نہیں ہیں۔ میرے اولیاء متقی لوگ ہیں جہاں ہوں اور جس طرح کے ہوں۔" (زادالمعاد: 4/23) اسی وجہ سے شریعت نے دین دار عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عورت سے چار وجوہ کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندانی حسب و نسب کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی بنا پر، پس تو دین دار عورت سے نکاح کرنے میں کامیابی
Flag Counter