Maktaba Wahhabi

34 - 421
اور بعد میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور اسلام کی دعوت سلیمہ مختلف لوگوں اور ملکوں تک پہنچائی۔ مختلف قبائل کی طرف اپنے ایلچی بھیجے، مختلف بادشاہوں کو خطوط لکھے۔ نتیجہ میں قبائل میں سے بہت سے لوگوں نے دعوت اسلام کو قبول کر لیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام کی روشنی کو ہر فرد بشر تک پہنچایا تاکہ قیامت کے روز کوئی یہ حجت نہ کر سکے کہ مجھ تک اسلام کی روشنی اور دعوت و ہدایت نہیں پہنچی تھی۔ یہ ایک انسان کا حق ہے کہ وہ اس روشنی کو دیکھے پھر اسے اختیار ہے کہ وہ اس کو قبول کرے یا نہ کرے، لیکن تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ اسلام کی یہ روشنی جب لوگوں تک پہنچی تو ہر ایک نے اسے قبول کیا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس روشنی کو دیکھنے کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اسلام نے جس طرح ہر شخص کو حریت فکر عطا کی ہے اسی طرح حریت نظر بھی بخشی ہے۔ لوگوں نے اسلام کی اس روشنی سے اپنے دلوں کو منور کیا لیکن جن لوگوں نے روشنی اور اپنے درمیان تعصب کی دیوار کھڑی کر دی تھی وہ اس روشنی سے مستفیض نہ ہو سکے اور پوری زندگی کفر کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ جہاد میں بھی تین شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ دین اسلام کو قبول کر لو۔ اس صورت میں تمہارے اور ہمارے حقوق برابر ہوں گے یا پھر ہمارے باج گزار بن جاؤ۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم عطا فرمائی تھی انہوں نے تنہائیوں میں مسلمانوں کی اس دعوت پر غوروفکر کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کا دین سچا ہے جب کہ ہم جس دین پر ہیں اس میں کوئی معقولیت نہیں۔ اپنے ہی ہاتھوں سے بت بنا کر پھر انہی کی عبادت کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ چنانچہ دعوت سے اسلام اس قدر تیزی سے پھیلا کہ مدینہ کی دس سالہ زندگی میں مسلمانوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گئی کیونکہ حجۃ الوداع میں آپ کے ساتھ قریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار نفوس قدسیہ تھے۔ اتنے انسان کسی نبی کے ہاتھ پر اتنی قلیل مدت میں ایمان نہیں لائے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے تین بار میدان عرفات یہ سوال کر کے "هل بلغت" کیا میں نے اللہ کے دین کی دعوت تم لوگوں کو پہنچا دی ہے؟ ان سب نے یک زبان ہو کر کہا "ہاں" اے اللہ کے رسول! اور پھر آپ نے فرمایا: "اللّٰهم
Flag Counter