Maktaba Wahhabi

350 - 421
حافظ ابن قیمؒ نے زاد المعاد میں لکھا ہے شریعت میں حضانت بچہ کے لئے حق واجب ہے۔جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ کیا تو آپ نے یہ فرمایا کہ" ماں زیادہ مہربان،شفیق،زیادہ رحیم اور زیادہ لطف وکرم والی ہوتی ہے،اور وہ دوسرا نکاح کرنے سے قبل بچے کی زیادہ حق دار ہوتی ہے۔"پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے عہد خلافت میں اسی فیصلہ کی روشنی میں فیصلہ کرتے رہے اور فتویٰ دیتے رہے اور یہ حکم اجماعی ہوگیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں کوئی اس کا مخالف نہیں ہے۔(زاد المعاد ابن قیمؒ:4/240) جب بچہ کی ماں اور نانی بچہ کی حصانت کی باپ سے زیادہ حق دار ہے تو یقیناً یہ دونوں چچا سے بھی زیادہ حق دار ہیں۔چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بچہ کی ماں اور بچے کا چچا مقدمہ لے کر آئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" تیری ماں کی تنگ دستی تیرے چچا کی خوش حالی سے بہتر ہے۔"(مصنف عبدالرزاق:5/156،محلی ابن حزم:10/328) البتہ اگر میاں بیوی غیر مسلم ہوں اور دونوں میں سے کوئی ایک اسلام قبول کرلے تو بچہ کی حضانت کا حق مسلمان کو ہوگا۔خواہ باپ مسلمان ہو یا ماں۔چنانچہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمہ میں یہی فیصلہ کیا تھا۔(المصنف بعد الرزاق:6/26) بچہ کے بالغ ہوجانے کی صورت میں حصانت کرنے والے کا حق ختم ہوجاتا ہے اور بچہ کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو ماں کے ساتھ رہے اورچاہےتوباپ کے ساتھ رہے۔چنانچہ ایک مقدمہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بچہ کو یہ اختیار دیا۔بچے نے ماں کا انتخاب کیا تو ماں اسے لے کر چلی گئی۔ (محلی:10/325،مصنف ابن ابی شیبہ:1/155،المغنی:8/614، 9/132) اسی طرح ایک عراقی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دےدی۔وہ حاملہ تھی۔اس شخص نے اپنی بیوی سے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس نے بچہ سے کوئی اچھا سلوک کیا تھا،یہاں تک کہ لوگ حج کو روانہ ہوگئے ۔اس قافلہ میں اس بچے کا باپ بھی تھا کسی شخص نے اس سے کہا کہ تمہارا بچہ بھی اس قافلہ میں ہے۔اگر تم اسے دیکھو تو کیا پہچان لوگے؟اس نے کہا بخدا نہیں۔اس شخص نے کہا یہ تمہارا بیٹا ہے۔اس نے اس کے اونٹ کی مہار پکڑ کر کھینچ لی اور اسے لے کر روانہ ہوگیا۔معاملہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچا۔دونوں بار
Flag Counter