Maktaba Wahhabi

36 - 421
کر بھیجا تو انہیں ہدایت فرمائی: "تم ایک ایسی قوم کو پاؤ گے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو دین کے ساتھ محبوس کر رکھا ہے۔ آپ جیسا وہ سمجھتے ہیں اسی طرح انہیں سمجھنے دیں اور ان کے معاملات میں بالکل کوئی دخل نہ دیں۔ (مؤطا امام مالک: ص 296) اسی طرح سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اہل ایلیاء [1] کو جو امان دی اس میں ان کے اموال، ان کے گرجوں اور ان کی صلیبوں کے بارے میں پورا تحفظ دیا گیا۔ یہ واقعہ 15ھ کا ہے۔ (طبری: 3/305) اسی طرح اسلامی لشکر کے قائد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ اہل حیرہ کا کوئی گرجا اور کنیسہ منہدم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں ناقوس بجانے سے روکا جائے گا، اور نہ اس کی عید پر انہیں صلیب نکالنے سے منع کیا جائے گا۔ اور اہل عانات سے جو معاہدہ کیا گیا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ وہ جس وقت بھی چاہیں اپنے ناقوس بجا سکتے ہیں، خواہ دن ہو یا رات، البتہ اوقات نماز میں وہ اپنے ناقوس نہیں بجا سکتے۔ اپنی عید پر انہیں بھی صلیب نکالنے کی پوری پوری اجازت ہے۔ (کتاب الخراج لابی یوسف: ص 146، حقوق الانسان فی الحرب والسلام الطیار: ص 66) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو اس بارے میں وہ مثالیں قائم کیں جن کی نظیر دنیا میں ملنی مشکل ہے، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول بالکل صحیح ثابت ہوا جس میں آپ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: "آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔" (البدایۃ والنہایہ: 7/136، سیرت عمر بن الخطاب لابن جوزی: ص 140) آپ کی رعایا میں مسلمان بھی تھے اور دوسرے مذاہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ بھی تھے۔ عموماً سربراہانِ مملکت دوسری قوموں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے لیکن آپ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ وہ لوگ ان کے گرویدہ ہو گئے اور آپ پر جان چھڑکنے لگے۔ ان کے عہد کا سب سے نمایاں وصف یہی ہے کہ شاہ و گدا، ادنی و اعلیٰ، خویش و بیگانہ، شریف و رذیل اور مسلم و غیر مسلم
Flag Counter