Maktaba Wahhabi

38 - 421
"آپ کہہ دیجئے کہ بےشک میری نماز، میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔" (الانعام: 162-163) انسانی نفس اللہ کے حکم سے معصوم ہے اور اس کا زندہ رہنا اس کا بنیادی حق ہے، البتہ شرعی طور پر اگر اس سے کوئی ایسا جرم ثابت ہو تو ایک اسلامی حکومت مجرم کو قتل کر سکتی ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کسی انسانی نفس کو بغیر حق کے قتل کرنا حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: (وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٥١﴾) (الانعام: 151) "اور جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو، یہی وہ کام ہے جس کا اللہ نے تم کو مؤکد حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔" اس آیت میں قتل ناحق کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ قتل ناحق کو سمجھنا اس پر موقوف ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ قتل برحق کون کون سے ہیں۔ جو شخص نماز پڑھنے یا زکوٰۃ دینے سے انکار کرے اس کو قتل کر دیا جائے۔ اسی لیے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ سے قتال کیا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مجھے لوگوں سے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ وہ یہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اگر انہوں نے یہ کر لیا تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا ماسوا ان کے حقوق کے، اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ (بخاری، رقم: 25، مسلم، رقم: 36، 128) اور مرتد، شادی شدہ زانی اور مسلمان کے قاتل کو بھی قتل کرنا برحق ہے۔ (بخاری، رقم: 6484، مسلم، رقم: 1676) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
Flag Counter