Maktaba Wahhabi

44 - 421
ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کو ایک معاہد (وہ کافر جس سے معاہدہ ہوا ہو) کے بدلہ میں قتل کر دیا اور فرمایا جو لوگ اپنے معاہدہ کو پورا کرتے ہیں میں ان میں سب سے بڑھ کر کریم ہوں۔ (سنن دارقطنی، رقم: 3232، سنن کبریٰ، بیہقی: 8/30) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ذمہ کے بدلہ میں اہل قبلہ کے ایک شخص کو قتل کر دیا۔ (سنن دارقطنی، رقم: 3234) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان سے قصاص لیا جس نے ایک یہودی کو قتل کر دیا تھا۔ رمادی نے کہا کہ مسلمان سے ذمی کا قصاص لیا اور فرمایا: "جو لوگ اپنے عہد کو پورا کریں میں ان میں سب سے زیادہ کریم ہوں۔" (سنن دارقطنی، رقم: 3233) قتل کے بارے میں اسلام بہت سخت ہے۔ چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ قاتل کو قصاص میں قتل کر دیا جائے خواہ قاتل ایک ہو یا متعدد۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک لڑکے کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اس کے قتل میں تمام اہل صنعا شریک ہوتے تو میں ان سب کو قتل کر دیتا۔ (بخاری: 2/1018) علماء نے لکھا ہے کہ اگر بادشاہ اپنی رعیت میں سے کسی شخص پر زیادتی کرے تو وہ خود اپنی ذات سے قصاص لے گا کیونکہ بادشاہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مقتول کے سبب سے تمام مسلمانوں پر قصاص کو فرض کیا ہے۔ اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کو بے قصور قتل کر دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ خود کو قصاص کے لیے پیش کرے۔ اس سلسلہ میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک چھڑی چبھوئی۔ اس نے ایک چیخ ماری۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا: آؤ بدلہ لے لو۔ اس شخص نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! میں نے معاف کر دیا۔" (سنن نسائی: 2/242) ایک اور روایت میں ہے کہ اس شخص کے چہرہ پر زخم لگ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آؤ مجھ سے بدلہ لے لو۔" اس نے کہا: "میں نے معاف کر دیا۔" (ابو داؤد: 2/268)
Flag Counter