Maktaba Wahhabi

91 - 421
کرنے سے یک قلم انکار کر دیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ رضی اللہ عنہ کو بہت پیار کرتے تھے۔ آپ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کے منہ سے سفارش کے الفاظ سن کر فرمایا: "کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟" پھر آپ نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: "اے لوگو! تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے، اور جب ان میں کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو وہ اس پر حد قائم کرتے، اور بخدا! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔" (بخاری، رقم: 6788، مسلم، رقم: 4297) علامہ عینی نے لکھا ہے کہ اس عورت کا پورا نام فاطمہ بنت اسود بن عبدالاسد بن عمر بن مخزوم تھا۔ یہ ایک جلیل القدر صحابی سیدنا ابو سلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ کی بھتیجی تھیں جو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سابق شوہر تھے۔ (ملاحظہ ہو عمدۃ القاری: 23/277) معلوم ہوا کہ حدود میں حاکم سے سفارش کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر حاکم کے پاس مقدمہ پیش کرنے سے پہلے کوئی شخص اپنا حق معاف کر دے تو یہ جائز ہے، مثلاً جس کی چوری ہوئی ہے وہ حاکم کے پاس مقدمہ لے جانے سے قبل چور کو معاف کر سکتا ہے، لیکن جب حاکم کے پاس مقدمہ پیش ہو جائے اور جرم کا ثبوت مل جائے تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ مجرم پر حد جاری کر دی جائے، اور حاکم وقت کو بھی حدود معاف کرنے کا حق نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں صدر کو جو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قاتل کی پھانسی کی سزا کو معاف کر دے یا عمر قید میں تبدیل کر دے، اس کا شریعت میں کوئی جواز نہیں ہے۔ (سرقہ کی تفصیل کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں ہماری کتاب "اسلام کا نظامِ عدل) مال چوری کرنا تو بہت بڑی بات ہے اسلام تو دوسرے شخص کی خوش دلی (طیب نفس) کے بغیر اس کا مال لینے کو حلال اور جائز نہیں سمجھتا۔ چنانچہ حدیث میں ہے: (لا يحل مال امرئ الا بطيبة نفس منه) (مسند احمد: 5۔۔۔72، تغیر قرطبی: 12/314)
Flag Counter