Maktaba Wahhabi

101 - 645
اور جس کی اس نے فعل مامور میں اعانت نہیں کی، تو اس مامور کے ساتھ اس کا امر تو متعلق ہوا لیکن اس کی آفرینش متعلق نہ ہوئی کیونکہ وہ حکمت معدوم تھی جو خلق کے اس سے متعلق ہونے کو مقتضی تھی اور وہ حکمت حاصل تھی جو اس کی ضد کے خلق سے متعلق تھی۔ دو ضدین میں سے ایک کا خلق دوسری ضد کے منافی ہے۔ کیونکہ بندے میں اس بیماری کا پیدا کرنا جس سے اس میں اپنے رب کے آگے ذلت و زاری، گریہ و دعا، توبہ و انابت پیدا ہوتی ہو، گناہوں کی تکفیر ہوتی ہو، دل مر جائے، ؟؟ اکڑ نکل جائے، سرکشی و فعلی جاتی رہے ک یہ اس صحت کے خلق کے منافی ہیں جس کے ہوتے ہوئے یہ مصالح و منافع حاصل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح ظالم کے ظلم کو پیدا کرنے سے مظلوم میں وہی صفات پیدا ہوتی ہوں جو مرض کی وجہ سے پیدا ہوتی ہوں یہ اس عدل کو پیدا کرنے کے منافی ہیں جس کے ذریعے یہ مصالح و منافع حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ اس کی مصلحت اس میں ہو کہ عدل ہو۔ بندوں کی عقلیں اس بات کے سمجھنے سے قاصر و درماندہ ہیں کہ انہیں رب تعالیٰ کے خلق و امر کی حکمتیں معلوم ہوں ان قدریہ نے فاسدہ طریقہ سے تعلیل کے میدان میں قدم رکھا اور اس باب میں انہوں نے رب تعالیٰ کو اس کی خلق سے تشبیہ و تمثیل دے ڈالی اور وہ حکمت ثابت نہ کی جو اس کی طرف لوٹتی ہے۔ ان لوگوں نے رب تعالیٰ کی صفاتِ کمال جیسے حکمت و قدرت اور محبت وغیرہ رب تعالیٰ کے حق میں سلب مان لیا۔ پھر ان کے مد مقابل جھمیہ جبریہ وہ طریق اپنایا کہ انہوں نے نفس الامر حکمت و تعلیل کو ہی باطل کہہ ڈالا۔ جیسا کہ انہوں نے حسن و قبیح کے مسئلہ میں نزاع کیا کہ ان لوگوں سے اس کو اس طریق سے ثابت کیا کہ اس میں اللہ اور مخلوق کو ایک صف میں کھڑا کر دیا اور ایسا حسن و قبیح ثابت کیا جو محبوب و مکروہ کو متضمن نہیں ۔ بے شک یہ قول بے حقیقت ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اس تعلیل کو ثابت کیا جس کا حکم فاعل کی طرف سے لوٹتا۔ تو ان کے مقابلوں نے جملہ افعال ایک کر دیے اور انہوں نے اللہ کے لیے نہ مکروہ ثابت کیا اور نہ محبوب۔ ان کا گمان ہے کہ اگر تو حسن فعل کی صفتِ ذاتیہ ہے تو اس کا حال مختلف نہیں ۔ لیکن یہ ان کی خطا ہے۔ کیونکہ موصوف کی صفتِ ذاتیہ سے کبھی اس کا لازم مراد ہوتا ہے۔ یہ منطقی لازم کو ذاتی اور عرضی میں تقسیم کرتے ہیں ۔ اگرچہ یہ تقسیم غلط ہے۔ اور کبھی صفتِ ذاتیہ سے مراد وہ صفت ہوتی ہے جو ثبوتی اور موصوف کے ساتھ قائم ہو تاکہ امورِ نسبتیہ اضافیہ سے احتراز ہو جائے۔ اس باب میں یہ لوگ احکام شرعیہ میں شدید اضطراب کا شکار ہو گئے۔ سو حسن و قبیح عقلیہ کے نفاۃ کا گمان یہ ہے کہ یہ نہ تو افعال کی صفتِ ثبوتیہ ہے اور افعال کی صفتِ ثبوتیہ کو مستلزم ہے۔ بلکہ یہ صفاتِ نستبیہ اضافیہ میں سے ہے۔ سو حسن کے بارے میں صرف یہ کہا جائے گا کہ اسے کر لے۔ یا یہ کہ اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں اور قبیح کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اسے مت کر۔
Flag Counter