Maktaba Wahhabi

102 - 645
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قول سے متعلق قول کی کوئی صفتِ ثبوتیہ نہیں اور یہ لوگوں اپنے منازعین کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ان کا قول ہے کہ: احکام یہ افعال کی صفتِ ذاتیہ ہیں ۔ لیکن انہوں نے اس کی نقیض یہ پیش کی ہے ک جنس کے ایک ہونے کے باوجود احکام میں تغیر تبدل ہو سکتا ہے۔ اس کی تحقیق یہ ہے کہ افعال کے احکام صفاتِ لازمہ میں سے نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ افعال کی صفتِ عارضہ ہیں ۔ جو ان ی مناسبت اور منافرت کے اعتبار سے ہیں ۔ لہٰذا حسن اور قبیح اس اعتبار سے ہو گا کہ ایک شی محبوب یا مکروہ، نافع یا ضار، یا مناسب اور غیر مناسب ہو، اور یہ موصوف کی صفتِ ثبوتیہ ہے۔ لیکن اس میں شی کے احوال کے تنوع سے تنوع آتا ہے۔ البتہ یہ اسے لازم نہیں ۔ جس نے یہ کہا ہے کہ افعال میں ایسی کوئی صفت نہیں ہوتی جو حسن و قبیح کو مقتضی ہو۔ تو یہ اس کے اس قول کے بمنزلہ ہے کہ اجسام میں ایسی کوئی صفات نہیں جو تسخین (گرم کرنا) اور تبرید (ٹھنڈا کرنا) کو اور اِشباعِ (پیت بھرنا) اور راء واء (پیاس بجھانا) کو مقتضی ہو۔ پس اعیان کی ان صفات کا سلب جو آثار کو مقتضی ہوں ، یہ افعال کو ان صفات کے سلب کے جیس اہے جو آثار کو مقتضی ہوں ۔ البتہ اعیان کی صفات اور طبائع و آثار کو ثابت کرنے والے جمہور مسلمان ہیں ۔ اسی طرح وہ اشیاء میں حسن و قبیح کو بھی ثابت کرتے ہیں ۔ جو ان کی مناسبت اور منافرت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ﴾ (الاعراف: ۱۵۷) ’’جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور انھیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے۔‘‘ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ فعل فی نفسہ معروف بھی ہوتا ہے اور منکر بھی اور مطعوم طیب بھی ہوتا ہے اور خبیث بھی اور اگر اعیان میں اور افعال میں کوئی صفت نہیں ہوتی مگر جب امرو نہی اس کے متعلق ہو۔ تو پھر اس آیت کی تقدیری عبارت یوں ہوتی: ’’وہ انہیں امر دیتا ان باتوں کا جن کا وہ حکم دیتا ہے اور انہیں ان باتوں سے روکتا ہے جن سے روکتا ہے اور ان کے لیے وہ حلال کرتا ہے جو ان کے لیے حلال کرتا ہے اور ان پر وہ حرام کرتا ہے جو ان پر حرام کرتا ہے۔ حالانکہ رب تعالیٰ ایسے کلام سے منزہ اور پاک ہے اسی طرح ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآئَ سَبِیْلًاo﴾ (الاسراء: ۳۲) ’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔‘‘ اور فرمایا:﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ﴾ (الاعراف: ۲۸) ’’بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔‘‘
Flag Counter