Maktaba Wahhabi

104 - 645
چاہے اس نے اس کا ارادہ نہ بھی کیا ہو، یعنی اس کے وجود کو نہ چاہا ہو۔ یہ جمہور فقہاء کا قول ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا قول ہے کہ محبت اور رضا ہی ارادہ ہے اوروہی مشیئت ہے۔ سو وہ ایسی بات کا بھی حکم دیتا ہے جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا اور نہ اسے وہ محبوب اور پسند ہے۔ ان کے نزدیک کفر و فسق اور معصیت کا ارتکاب اسے محبوب اور پسند ہے۔ جیساکہ اس نے اس کا ارادہ کیا اور اسے چاہا۔ ان کا کہنا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کو کفر باعتبار دین ہونے کے محبوب اور پسند نہیں ۔ جیسا کہ اس نے کفر کے دین ہونے کا نہ ارادہ کیا اور نہ اسے چاہا؛ اور نہ ہی یہ اسے اس سے بڑھ کر محبوب اور پسند ہے؛ جس سے اس کا وقوع نہیں ہوا ۔ جیسا کہ اس سے ارادہ نہیں کیا جس سے اس کا وقوع نہیں ہوا اور نہ اس سے چاہا ہے جس سے اس کا وقوع نہیں ہوا۔ یہ اشعری اور اس کے اکثر اصحاب کا قول ہے۔ جسے خود اشعری نے اہل اثبات کی ایک جماعت سے حکایت کیا ہے اور اشعری سے پہلے قول جیسا قول بھی حکایت کیا گیا ہے۔اس قول والے معتزلہ اور شیعہ وغیرہ قدریہ ہیں ۔ جو رضا اور محبت کو ارادہ کے معنی میں قرار دیتے ہیں ۔ پھر یہ منکرین تقدیر کہتے ہیں : اس بات پر نص اور فقہاء کا اجماع ہے کہ اس نے کفر، فسق اور معاصی کو نہ پسند کیا ہے اور نہ ہی اسے محبوب ہیں ۔ نہ اس نے ان کا ارادہ کیا ہے اور نہ چاہا ہے۔ قائلین تقدیرکہتے ہیں : اس بات پر نص اور جماع ہے کہ اس نے ان کو چاہا ہے۔ لہٰذا یہ اسے محبوب اور پسند ہے اور اس نے اس کا ارادہ کیا ہے۔ البتہ جمہور مشیئت و ارادہ میں اور محبت و رضا میں فرق کرتے ہیں ۔ جیسا کہ خود لوگوں میں ان دونوں باتوں میں فرق پایا جاتا ہے۔ جیسے آدمی بسا اوقات ایسی کڑوی دوا بھی پی جاتا ہے جس کا پینا اسے غیر محبوب اور مبغوض ہوتا ہے اور ان اشیاء کا کھانا اسے محبوب ہوتا ہے جن کی اسے اشتہاء ہوتی ہے۔ جیسے مریض کا ممنوع اشتہاء کے کھانے کی اشتہاء، اور روزہ دار کی بھوک اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی اور گرم کھانے کی خواہش؛ حالانکہ وہ ایساکرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سو ظاہر ہو گیا کہ بسا اوقات انسان اس چیز کو محبوب رکھتا جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا ہوتا اور ایسی چیز کا ارادہ بھی کرتا ہے جو اسے محبوب نہیں ہوتی۔وہ یہ کہ کبھی مراد دوسرے کے لیے ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ ناگوار اشیاء کا اس لیے ارادہ کرتا ہے کہ ان میں انجام کار اشیاء محبوبہ و مرغوبہ ہوتی ہیں ۔ اور بسا اوقات اپنے محبوب فعل کو بھی نا پسند کرتا ہے کیونکہ اس کا انجام ناگواری پر ہوتا ہے۔ رب تعالیٰ کی اپنی ہر آفرینش میں حکمت ہے۔ وہ متقین، محسنین، توابین سے محبت کرتا ہے، ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے اور بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنے کھانے پینے کے سامنے سے لدے اونٹ کو گم کر بیٹھے؛ اوروہ اب مایوس ہوکر موت کی تیاری میں ہو کہ اچانک اسے وہ گم شدہ اونٹ مل جائے۔ جیسا کہ متعدد صحیح احادیث میں یہ مضمون آیاہے۔فرمان نبوی ہے: ’’ یقیناً اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایک کی توبہ پر اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس نے صحرا میں اپنی سواری کھودی؛ اس پر اس کا کھانا پینا بھی ہو ۔ وہ اسے تلاش کے باوجو د نہ پائے تو وہ موت کے انتظار لیٹ
Flag Counter