Maktaba Wahhabi

105 - 645
گیا۔ پس جب وہ بیدار ہوا تو اس کی سواری اس کے پاس کھڑی تھی؛ ور اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا۔پس اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس انسان کی سواری مل جانے کی خوشی سے بڑھ کر خوش ہوتے ہیں ۔‘‘[اس کی تخریج گزرچکی ہے] اب یہ فلاسفہ فرح و محبت کی تعبیر، سرور، لذت اور عشق سے کرتے ہیں ۔ اب اگر یہ بات ہے تو رب تعالیٰ بعض اشیاء کے وجود کو اس لیے چاہتا ہے کہ وہ اس کی محبت و رضا تک پہنچاتی ہیں اور بسا اوقات رب تعالیٰ کسی محبوب کو اس لیے نہیں کرتا کہ وہ کسی مبغوض و مکروہ کے وجود کو مستلزم ہوتی ہے۔ سو رب تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ ہر نطفہ سے مراد پیدا کر لے جو مومن ہو اور اسے اس کا ایمان اور وہ مومن محبوب ہو۔ لیکن وہ کسی حکمت کے تحت ایسا نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ کسی مبغوض و مکروہ تک لے جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے گا کہ پھر وہ یہ کیوں نہیں کرتا اور مبغوض کو روک کیوں نہیں دیتا؟ تو اس کا جواب یہ ہے : متعدد اشیاء ممتنع لذاتہ ہوتی ہیں اور بعض ممتنع لغیرہ ہوتی ہیں ۔ کھانے سے حاصل ہونے والی لذت پینے، سونگھنے اور سننے وغیرہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ ان سے حاصل ہونے والی لذت اور ہے۔ پھر منہ میں کھانے کی لذت پینے کی لذت سے جدا ہے۔ پھر ایک آواز کی لذت دوسری آواز کی لذت سے مختلف ہوتی ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ بندے کو ہر محبوب اور لذیذ چیز آنِ واحد میں یکجا ہو جائے۔ بلکہ ایک کا حصول تب ہی ہو گا جب اس کی ضد کو فوت کیا جائے گا۔ پھر ہر مخلوق کے لوازم بھی ہیں اور اضداد بھی۔ سو وہ شی تب ہی پائی جائے گی جب اس کے لوازم پائے جائیں اور اضداد غیر موجود ہوں اب اللہ کو بندے سے جہاد بھی محبوب ہے اور حج بھی۔ وہ جو بھی کرے محبوب ہو گا۔ لیکن بندہ بیک وقت مشرق اور مغرب دونوں کا مضر نہیں کر سکتا۔ بلکہ بیک وقت حج اور جہاد دونوں کو نہیں کر سکتا۔ کہ دونوں میں سے ایک دوسرے کے نہ کرنے سے ہی حاصل ہو گا۔ حج فرض اور جہاد نفل ہی ہو۔ تو حج زیادہ محبوب ہو گی اور اگر دونوں نفل دونوں فرض ہوں گے پھر اگر تو اسے جہاد زیادہ محبوب ہو گا۔ اب رب تعالیٰ کو دونوں میں سے ایک محبوب جو دوسرے کو نہ کر کے حاصل ہوا ہے، پسند ہے۔ کیونکہ اگر دوسرے کو فوت کیے بغیر اس کا وجود ممکن ہوتا تو یہ بھی محبوب ہوتا اور اگر اس کا وجود اس دوسرے زیادہ محبوب کو فوت کر کے حاصل ہوتا تو بھی ایک اعتبار محبوب ہوتا تو دوسرے اعتبار سے مکروہ ہوتا۔ اب رب تعالیٰ نے جو بعض لوگوں میں طاعت کو مقدر نہیں کیا تو اس میں اس کی حکمت ہے۔ جیسا کہ جب اس نے دو میں ادنیٰ محبوب کا حکم نہیں دیا تو اس میں بھی اس کی حکمت ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔لیکن اجتماعِ ضدین عمومِ اشیاء میں داخل نہیں ۔ کیونکہ یہ بالذات محال ہے۔ یہ ایسا کہنے کے بمنزلہ ہے: بھلا رب تعالیٰ نے بندے کو اس بات پر قادر کیوں نہ بنایا کہ وہ آنِ واحد میں مشرق کو حج کے لیے اور مغرب کو جہاد کے لیے جا سکتا۔
Flag Counter