Maktaba Wahhabi

112 - 645
نیک اعمال بھی کیے تھے۔ جبکہ تو نے نابالغی کی وجہ سے نیک اعمال نہ کیے۔ اس نابالغ نے کہا: اے میرے رب! مجھے کم سنی میں موت تو نے دی۔ اگر تو مجھے زندہ رکھتا تو میں بھی اس جیسے نیک عمل کرتا۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تیری مصلحت کو پیش نظر رکھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر تو بلوغت کو پہنچتا تو کفر کرتا۔ اسی لیے میں نے تمہیں کم سنی میں ہی موت دے دی۔ اس پر وہ تیسرا دوزخ میں سے چلایا: اے اللہ! تو نے میرے ساتھ ایسا کویں نہ کیا جیسا کہ تو نے میرے اس کم سن بھائی کے ساتھ کیا؟ کہ بات تو میرے حق میں بھی مصلحت تھی؟ چنانچہ جب اشعری نے جبائی پر یہ اعتراض کیا تو وہ لا جواب ہو گیا۔ وہ اس لیے کہ یہ لوگ دو متماثلین میں رب تعالیٰ پر عدل کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور یہ کہ وہ دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھ وہ کرے جو اس کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ جبکہ یہاں اس نے ان لوگوں کے نزدیک ایک کے ساتھ دوسرے سے زیادہ مناسب معاملہ کیا ہے۔ غرض یہ مقام اس کی تفصیل کا نہیں ۔ جب بات یہ ہے تو ان کا رب تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دینا باطل ٹھہرا اور اِن کو اُن لوگوں نے یہ کہا: ہم اور تم اس بات پر تو متفق ہیں کہ رب تعالیٰ کے فعل کو اس کی مخلوق کے فعل پر قیاس نہ کیا جائے گا۔ اور ہم اور تم اس فاعل کو ثابت کرتے ہیں جو ایسا فعل کرتا ہے جو اس کی ذات سے منفصل ہوتا ہے، بغیر کسی ایسی شی کے جو اس کی ذات میں حادث ہیں ۔ حالانکہ مشاہدہ میں یہ بات غیر معقول ہے اور ہم ایسا فاعل ثابت کرتے ہیں جو ہمیشہ سے غیر فاعل ہو۔ یہاں تک کہ وہ کسی شی کے تجدد کے بغیر فعل کرتا ہے۔ حالانکہ مشاہدہ میں یہ بات بھی غیر معقول ہے۔ تم وہ غرض ثابت کرتے ہوجوایسے فاعل کو ثابت کرتی ہے جو ہمیشہ سے غیر فاعل ہو۔حتی کہ وہ کسی چیزکے تجدد کے بغیر فعل کرتا ہو۔ یہ بات بھی مشاہدہ میں غیر معقول ہے اور تم وہ غرض ثابت کرتے ہو جو مشاہدہ میں غیر معقول ہے۔ اور اس پر مستزاد اس بات کے بھی مدعی ہو کہ تم رب تعالیٰ کی ذات سے سفاہت کی نفی کرتے ہو اور اسے حکیم بھی ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ جو تم ثابت کرتے ہو وہی تو رفاہت ہے جو کتاب و سنت اور حکمت کے مخالف اور مشاہدہ میں معقول ہے۔ تو جب بات یہ ہے تو تمہارا یہ قول کہ ہر وہ عاقل جو ایسی بات کا حکم دے جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا اور ایسی بات سے روکے جس کا اس نے ارادہ کیا ہے کہ اس کی سفاہت کی طرف نسبت کی جائے گی، حالانکہ رب تعالیٰ اس بات سے منزہ اور پاک ہے۔ تو تمہیں یہ جواب دیا جائے گا کہ اگر تو یہ فاعل کوئی مخلوق ہے تو تم یہ کیوں کہتے ہو کہ خالق بھی اسی طرح ہے۔ حالانکہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ خالق اور مخلوق میں فرق ہے؟ اور مخلوق جلب منفعت اور دفع مضرت کی محتاج ہے۔ حالانکہ اللہ اس بات سے منزہ ہے اور بندہ مامور بھی ہے اور منہی بھی ہے۔ سو اگر تو تم لوگوں نے یہ قضیہ کلیہ کر کے لیا تو اس میں خالق بھی داخل ہو جائے گا۔ جبکہ عقلاء کا ماثور و منقول اجماع ہمیں اس بات سے روکتا ہے اور اگر تم یہ قضیہ مخلوق میں لیا تاکہ اس پر خالق کو قیاس کریں ، تو قیاسِ فاسد ہے۔ تمہیں یہ
Flag Counter