Maktaba Wahhabi

113 - 645
قیاس کرنا صحیح نہیں نا اس لیے کہ یہ قیاسِ مشمول ہے یا اس لیے کہ یہ قیاسِ تمثیل ہے۔ اشعری نے ان لوگوں کو ایک اور یہ جواب دیا ہے کہ ہم اس بات کو ہی تسلیم نہیں کرتے کہ آدمی کا مطلق ایسی بات کا حکم دینا سفاہت ہے جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا بلکہ بسا اوقات یہ حکمت بھی ہوتا ہے جب اس کا مقصود مامور کا امتحان لینا ہو تاکہ لوگوں کے سامنے اس کا عذر آ جائے اور اسے سزا نہ ملے۔ جیسے وہ آدمی جو اپنے غلام کو اس کی نا فرمانی پر سزا دے اور ملامت کرے۔ پھر وہ اپنا یہ عذر پیش کرے کہ یہ میرا نا فرمان ہے۔ پھر اس سے اس کی تحقیق کا مطالبہ کیا جائے اور وہ امتحان لینے کا حکم دے۔ اب اس وقت اس کا یہ ارادہ نہیں کہ وہ مامور بہ کو بجا لائے۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ یہ نا فرمانی کر کے دکھائے تاکہ اس کا عذر مقبول ہو سکے۔ اس طرح سے اس نے اس نفس کلام کو ثابت کیا جسے وہ ثابت کرتا ہے اور یہ کہ نفس کے ساتھ قائم طلب نہ تو ارادہ ہے اور ارادہ کو مستلزم ہے۔ جیسا کہ اس نے خبر کے معنی کو ثابت کیا ہے کہ وہ اخبارِ کاذب کا علم نہیں ۔ سو اس نے ممتحنین کے امر اور کاذب کی خبر اعتماد کیا ہے۔ لیکن جمہور اہل سنت اس جواب سے مطمئن نہیں ۔ کیونکہ در حقیقت یہ امر نہیں ہے بلکہ اظہارِ امر ہے۔ اس طرح خبر کاذب کہ اس نے زبان سے وہ کہا ہے جو اس کے دل میں نہیں ۔ سو کاذب کی خبر اس کے دل کی خبر نہیں ۔ بلکہ یہ جی کی بات کا اظہار ہے۔ سو ممتحن کا امر اس مذاق کرنے والے کے امر کی طرح کا ہے کہ جس کے مذاق کو مامور نہیں جانتا۔ اسی لیے مامور نے امر ممتحن کو جان لیا تاکہ وہ اسے سزا دے اور یہ اس کی مراد نہیں ۔ مگر جبکہ وہ نا فرمانی کرے کہ اس حال میں وہ اس کی اطاعت کرے گا۔ پھر ممتحن کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک وہ کہ جس کا قصد ہی یہ ہے کہ مامور اس کی نا فرمانی کرے تاکہ وہ اسے سزا دے۔ جیسے اوپر کی مثال میں ذکر ہوا اور دوسرا وہ کہ جس کی مراد مامور کی طاعت اور اس کا امتثالِ امر ہے۔ نا کہ نفس فعل ماموریہ۔ جیسے رب تعالیٰ کا حضرت خلیل کو اپنا بیٹا ذبح کرنے کا حکم دینا کہ یہاں مراد جنابِ ابراہیم علیہ السلام کی طاعت اور امتثالِ امر اور طاعت الٰہی میں اپنے بیٹے کو ذبح کر دینے کی پوری کوشش کرنا تھی اور یہ کہ رب تعالیٰ کی طاعت و محبت اور اس کی مراد انہیں اپنے بیٹے سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ سو جب یہ مراد حاصل ہو گئی تو رب تعالیٰ نے فدیہ میں قربانی کا ایک عظیم جانور بھیجا۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِo وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَّااِِبْرٰہِیْمُo قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo اِِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلَائُ الْمُبِیْنُo وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍo﴾ (الصافات: ۱۰۳۔ ۱۰۷) ’’تو جب دونوں نے حکم مان لیا اور اسے پیشانی کے بل لیٹادیا ۔ اور ہم نے اسے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ بیشک یہی تو یقیناً کھلی آزمائش ہے ۔ اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دیا۔‘‘
Flag Counter