Maktaba Wahhabi

188 - 645
ضرورت لاحق ہوئی کہ دونوں مسئلوں میں تطبیق دے کر یہ ثابت کریں کہ ان میں تضاد نہیں ہے۔ کلابیہ اور اشاعرہ کی ایک جماعت بھی یہی نظریہ رکھتی ہے؛یہ سب کا عقیدہ نہیں ؛ اور نہ ہی ان کے ائمہ کا عقیدہ ہے۔بلکہ اشاعرہ کے ائمہ اﷲتعالیٰ کو اس کی ذات کے ساتھ فوق العرش تسلیم کرتے ہیں ۔ پھربھی ان میں سے جس نے بھی اس بات کی نفی ہے، اس نے معتزلہ کی موافقت میں کی ہے اس کی اور اس کے ملزومات کی نفی کی ہے۔[معتزلہ فوقیت و رؤیت کسی کو بھی نہیں مانتے]۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے حدوث عالم کے مسئلہ میں معتزلہ کے ساتھ صحیح دلیل میں ان کی موافقت کی؛ وہ دلیل یہ ہے کہ: جسم حرکت اور سکون سے خالی نہیں ہوتا۔اور جو کچھ ان دو امور سے خالی نہ ہو وہ حادث ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ایسے حوادث کا ہونا ممتنع ہے جن کی کوئی ابتداء ہی نہ ہو۔ تو کہنے لگے: اس سے ہر جسم کا حادث ہونا لازم آتا ہے ۔ پس یہ ممتنع ہے کہ باری سبحانہ و تعالیٰ جسم ہو۔اس لیے کہ وہ ہستی قدیم ہے۔ اور پھر اس کا کسی جہت میں ہونا بھی ممتنع ٹھہرا۔ اس لیے کہ جہت میں صرف جسم ہی ہوسکتا ہے۔ پس یہ بات ممتنع ٹھہری کہ وہ دیکھنے والے کے مقابلہ میں ہو۔ اس لیے کہ مقابلہ صرف دو اجسام میں ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہور عقلاء خواہ وہ روئت کے قائلین ہوں یا منکرین؛ وہ کہتے ہیں : ’’بیشک اس قول کا فاسد ہونا ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے۔ اسی لیے رازی نے کہا ہے کہ : امت کے تمام فرقے اس مسئلہ میں اس کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں ۔لیکن وہ اپنے اوپر الزام لگانے والے اس آدمی سے کہتے ہیں : ’’ بیشک ہم رؤیت کو ثابت مانتے ہیں ؛ اور جہت کا انکار کرتے ہیں ۔اس سے وہ کچھ لازم نہیں آتا جو تم نے ذکر کیا ہے۔پس اگر مرئی کا دیکھا جانے ؛ دیکھنے والے کی جہت سے ممکن ہو تو اس سے ہمارے قول کی صحت ثابت ہوئی۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو دو میں سے ایک مسئلہ میں ہمارا غلطی پر ہونا لازم آیا۔ یا تو رؤیت کی نفی میں ؛ یا پھر اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے مبائین اور ان کے اوپر عالی ہونے کی نفی میں ۔ جب ان دومیں سے ایک مسئلہ میں خطاء لازم آئی تو اس سے رؤیت کی نفی میں خطأ میں نفی متعین نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ غلطی علو اور مبائین ہونے کی نفی کرنے میں ہو۔ ہمارا تمہارے ساتھ کسی چیز میں اتفاق کرنا تمہارے حق میں حجت نہیں ہوسکتا۔ہمارے اقوال میں تناقض اللہ تعالیٰ کے مخلوق پر بلند ہونے کی نفی کرنے میں تمہارا قول درست ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ رؤیت الٰہی مستفیض نصوص کی روشنی میں اجماعِ سلف ِامت سے ثابت ہے؛اور ساتھ ہی عقل بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ پس اس صورت میں لازم ِ حق بھی حق ہی ہوتا ہے۔ جب ہم اس حق کو ثابت کرتے ہیں اور اس کی بعض لوازم کی نفی کرتے ہیں ؛ تو یہ تناقض حق اور اس کے لوازم کی نفی کی نسبت کم اور آسان ہے۔ اور تم ہو کہ رؤیت کی بھی نفی کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے علو اور مخلوق سے جدا ہونے کی نفی بھی کرتے ہو۔ پس ہمارے قول کی نسبت تمہارا قول معقول و منقول سے ہر لحاظ سے بہت دور ہے۔اور تمہارے قول کی نسبت ہمارا قول حق کے زیادہ قریب ہے۔ اور اگر ہمارے قول میں تناقض پایا جاتا ہے؛ تو یاد رہے کہ تمہارے قول میں ہماری نسبت زیادہ تناقض پایا جاتا ہے؛ اور تمہاری کتاب و سنت کی نصوص اور سلف
Flag Counter