Maktaba Wahhabi

262 - 645
دونوں میں سے ایک سے پوچھا : تم کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا : کوفہ ۔ پھر پوچھا : کیا تمہارا یہ راستہ تمہیں کوفہ پہنچادے گا؛ اور کیا یہ راستہ پر امن ہے؟ ۔اور کیا تمہارے ساتھی کا راستہ اسے اس کی منزل تک پہنچادے گا؟ اور کیا اس کا راستہ پر امن ہے ؟ ۔ تواس نے کہا : میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ۔پھر اس کے دوسرے ساتھی سے یہی سوال کیے۔ اس نے جواب میں کہا : مجھے علم ہے میرا یہ راستہ مجھے کوفہ تک پہنچائے گا۔ اور یہ راستہ پر امن ہے۔ اور مجھے علم ہے کہ میرے ساتھی کا راستہ اسے کوفہ تک نہیں پہنچائے گا۔اب یہ تیسرا انسان اگر اس کے باوجود پہلے ساتھی کی اتباع کرے گا تو اہل عقل و دانش اسے بیوقوف کہیں گے۔اور اگر اس نے دوسرے ساتھی کی راہ اختیار کی تو اس نے یقین و جزم کی راہ اختیار کی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب] : اس اعتراض و اشکال کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتاہے : پہلی وجہ :....ہم کہتے ہیں :اگر ان ائمہ کی پیروی حق و صواب ہے جن کی اطاعت کا دم تم بھرتے اور اس کو موجب نجات تصور کرتے ہو تو پھر اموی خلفاء کے اتباع جو اپنے ائمہ کی اطاعت کو واجب اور موجب نجات سمجھتے تھے حامل صدق و صواب تھے ۔پھر یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں پرجو طعن وتشنیع کرتے تھے؛ اور شیعان علی اور دوسرے لوگوں سے انہوں نے جو جنگیں لڑیں ان میں وہ حق پر تھے۔اس لیے کہ ان کا نکتہ نگاہ یہ تھا کہ ہر بات میں ائمہ کی اطاعت واجب ہے۔ نیز یہ کہ ائمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں احتساب سے بالا ہیں ۔ اور جو کام وہ اطاعت امام میں انجام دیں ، اس میں ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ بلکہ دلیل کے اعتبار سے ان کا مسلک شیعہ کی نسبت قوی تر تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان ائمہ کی پیروی کرتے تھے جن کو اﷲتعالیٰ نے مقرر و موید کیا، اور حکومت و سلطنت سے نوازا تھا۔ جب کہ منکرین تقدیر (جن میں شیعہ بھی شامل ہیں ) کا نظریہ یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ وہی کام کرتے ہیں جن میں بندوں کی کوئی مصلحت مضمر ہوتی ہے۔ تو ان کو سلطنت و حکومت و تفویض کرنے میں بھی بندوں کی مصلحت ملحوظ رکھی ہوگی۔ یہ امر محتاج بیان نہیں کہ اموی خلفاء سے امت کو جو فوائد حاصل ہوئے وہ ان مصالح کی نسبت عظیم تر تھے جو ایک عاجز و معدوم امام (یعنی امام غائب) کے ذریعہ معرض ظہور میں آئے۔ بنا بریں اموی خلفاء کے متبعین کو جو دینی و دنیوی فوائد حاصل ہوئے امام منتظر کے اتباع کو اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہوا۔شیعہ کا کوئی امام ایسا نہ تھا جو انہیں نیکی کا حکم دیتا، منکرات سے باز رکھتا اور دینی و دنیوی مصالح میں ان کی مدد کرتا۔ اس کے عین بر خلاف اموی خلفاء کے اتباع نے ان سے لا تعداد دینی و دنیوی فوائد و منافع حاصل کیے۔ خلاصہ کلام ! اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان نام نہاد معاونین کی دلیل قرین صحت و صواب ہے توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انصار و اعوان کی دلیل اقرب الی الصواب ہوگی۔ اور اگر پہلی دلیل باطل ہے تو دوسری اس سے باطل تر ہے۔ جب شیعہ اس بات میں اہل سنت کے ہم نوا ہیں کہ اموی خلفاء کی مطلق اطاعت میں نجات پر یقین کامل رکھنا خطا اور گمراہی ہے تو ائمہ معصومین اور ان کے نائبین کی اطاعت مطلقہ میں یقینی نجات اور ان کی اطاعت مطلقہ کا عقیدہ سابق الذکر ضلالت سے بھی عظیم تر گمراہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کا سرے سے کوئی امام ہے ہی نہیں ، ماسوا ان شیوخ کے جو ناجائز ذرائع سے
Flag Counter