Maktaba Wahhabi

263 - 645
ان کا مال بٹورتے اور اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں ۔ دوسری وجہ :....مصنف کی ذکر کردہ مثال اس وقت صحیح مطابقت رکھے گی جب دو مقدمات صحیح ثابت ہوجائیں : پہلا مقدمہ:....امام معصوم کا اثبات ۔ دوسرا مقدمہ :....امام کے امر و نہی کا اثبات ۔ یہ دونوں مقدمات نامعلوم ہی نہیں بلکہ باطل ہیں ۔ پہلے مقدمہ کو چھوڑیے ۔دوسرے مقدمہ میں : جن لوگوں کی عصمت کا دعوی کیا جاتا ہے ؛ صدیوں سے ان کا انتقال ہوچکا ہے ۔ [امامیہ کے ہاں ]امام منتظر بھی صدیوں سے غار میں غائب ہوچکا ہے۔ جب کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک یہ امام اصل میں معدوم ہے [اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ]۔اور جو لوگ ان رافضی شیوخ کی اتباع کرتے ہیں ‘ یا ان کتابوں کے مطابق چلتے ہیں جو بعض رافضی شیوخ نے لکھی ہیں ؛ جن کتابوں میں انہوں نے لکھاہے کہ یہ روایات ائمہ معصومین سے منقول ہیں ؛ تویہ حقیقت ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین رافضی شیوخ بالاتفاق معصوم نہیں ہیں ۔ اورنہ ہی ان کی نجات کے بارے میں قطعی طور پر یقین کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ پس اس بنا پر ثابت ہوگیا کہ رافضہ ان لوگوں کی اتباع نہیں کرتے جن کی نجات و سعادت کے بارے میں انہیں قطعی یقین ہے ۔اورنہ ہی اپنی نجات کے بارے میں یقین ہوسکتا ہے ۔اورنہ ہی ان ائمہ کی نجات کے بارے میں انہیں کوئی یقین ہے جو براہ راست امر و نہی کا کام کرتے ہیں ۔حالانکہ وہ ان کے ائمہ ہیں ۔ان لوگوں کا اپنے ائمہ کی طرف منسوب ہونے میں وہی حال ہے جو بہت سارے ان لوگوں کا حال ہے جو خود کو مرے ہوئے مشائخ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا کہ ان شیوخ نے کس چیز کا حکم دیا ہے اور کس چیز سے منع کیا ہے ۔بلکہ ان شیوخ کے ایسے اتباع کار ہیں جو لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں ۔اور لوگوں کواللہ کی سیدھی راہ سے روکتے ہیں ۔ اور انہیں ان مشائخ اور ان کے خلفاء کی شان میں غلو کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں اپنا رب بنالیتے ہیں ۔ جیسے شیعہ شیوخ اپنے پیروکاروں کو حکم دیتے ہیں ۔اور جیسے عیسائی علماء اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے ہیں ۔ یہ لوگ عوام کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کاحکم دیتے ہیں ۔اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔اس بنا پر وہ ’’لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘کلمہ توحید کی حقیقت سے خارج ہوجاتے ہیں ۔اس لیے کہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے ؛ اللہ کے سواکسی کو نہ پکارا جائے ؛ اس کے علاوہ کسی کاخوف نہ رکھا جائے؛ اس کے علاوہ کسی سے نہ ڈراجائے ؛ اس کے علاوہ کسی پر توکل نہ کیا جائے ؛ اور دین کو صرف اس کے لیے خالص مانا جائے ؛ اس میں کسی مخلوق کے لیے حصہ نہ بنایا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر فرشتوں اور انبیاء کو رب نہ بنانا چاہیے ۔توپھر یہ امور ائمہ ‘شیوخ ‘علماء اور بادشاہوں سے کیونکر روا ہوسکتے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے امر و نہی پہنچانے کاواسطہ ہے۔پس اللہ تعالیٰ کے علاوہ مخلوق میں سے کسی ایک کی بھی مطلق اطاعت نہیں کی جاسکتی۔جب امام یا شیخ کو الہ و معبود بنالیا جائے کہ اسے اس کی
Flag Counter