Maktaba Wahhabi

306 - 645
کافی تھا کہ کیا اس نے یہ شکار غلطی سے کیا ہے یا جان بوجھ کر؟ ۔ ان الفاظ میں سوال کرنا یہ زیادہ بہتر تھا بجائے یہ کہنے کے کہ: کیا وہ اس کا حکم جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا؟ اس لیے کہ خطاء کار اور متعمد کے مابین فرق ثابت ہونے پر تمام لوگوں کااتفاق ہے۔جب کہ خطاء کی جزاء لازم ہونے کے بارے میں اختلاف مشہور ہے۔ امام احمد اور سلف و خلف کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ خطاء کار پر کوئی جزاء نہیں ہوتی۔ سلف کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ ﴾ [المائدۃ۹۵] ’’اور جوکوئی تم میں سے اسے عمداً قتل کردے تو اس کا بدلہ برابر کا جانور ہوگاجو اس نے قتل کیا ہے ۔‘‘ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر شکار کرنے والے کے ساتھ خاص طور پر جزاء کا ذکر کیاہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ خطاء کار پر کوئی جزاء نہ ہو۔اصل تو اپنی ذمہ داری سے برأت ہے۔اور اس نص کی روشنی میں یہ جزاء متعمد پر واجب ہوتی ہے۔ جبکہ خطاء کار اپنی اصل پر ہے۔اور اس لیے بھی کہ اس حکم میں خاص طور پر متعمد کا ذکر کرنے کا تقاضایہ ہے کہ خطاکار پر اس حکم کا اطلاق نہ ہو۔ سیاق شرط سے یہ مفہوم بالکل واضح ہوتا ہے۔ یہاں پر عام کے بعد خاص کا ذکر کیا گیا ہے۔اگر ان دونوں کا حکم ایک ہی ہوتا تو پھر اتنا کہہ دینا کافی تھا:﴿وَ مَنْ قَتَلَہٗ منکم ﴾ ’’اور جو شخص تم میں سے اس کو قتل کرے ۔‘‘اس طرح انتہائی اختصار کے ساتھ حکم واضح ہوجاتا۔ لیکن یہاں واضح طور پر کہا گیا ہے : ﴿وَ مَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا ﴾ ’’اور جو شخص تم میں سے اس کوجان بوجھ کر قتل کرے ۔‘‘یہاں پر متعمد کا لفظ زیادہ کرنے سے اس کے معانی میں کمی آگئی۔ یہ حکمت لوگوں میں سے کسی ادنی ترین آدمی کے کلام سے بھی سمجھی جاسکتی ہے؛ تو پھر کلام اللہ جو کہ بہترین اور افضل ترین کلام ہے ‘ اور اس کلام کی فضیلت بھی مخلوق کے کلام پر ایسے ہی ہے جیسے خالق کی فضیلت مخلوق پر؛[ تو پھر اس سے کیوں یہ بات سمجھ نہیں آسکتی]۔ وہ علماء جوکہ خطاء کار پر جزاء کو واجب کرتے ہیں ‘ وہ عموم احادیث اورآثار صحابہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ نیز وہ قتل خطا پر بھی قیاس کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعمد کو بطور خاص ذکر کیا ہے ‘ اس لیے کہ اس موقع پر ان لوگوں کے لیے احکام اور وعید بیان ہورہی تھی جو عمداً ایسے کام کرتے ہیں ۔ اور پھر اس کے بعد جزاء بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : ﴿ لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ﴾ [المائدۃ۹۵] ’’تاکہ وہ اپنے اعمال کا مزہ چکھے، اللہ تعالیٰ نے سابقہ معاف کر دیا اور جو کوئی دوبارہ ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔‘‘ جب یہاں پر اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا ذکر کیا ایک جزاء اور دوسرا انتقام ؛ تو ان دونوں کا مجموعہ متعمد کے ساتھ خاص ہے۔ جب مجموعی سزا متعمد کے لیے خاص ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سزا کا بعض حصہ خطا کار کے لیے ثابت نہ ہوتا ہو۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
Flag Counter