Maktaba Wahhabi

307 - 645
﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ﴾ [النساء۱۰۱] ’’اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو تم پر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کر دواگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈال دیں گے۔‘‘ یہاں پر مرادتعداد اور ارکان دونوں میں قصر [کمی] کرنا ہے۔ اس قصر میں دونوں اقسام شامل ہیں : نماز سفر ؛ اور نماز خوف۔یہاں ان دونوں احکام کے ان دوقسموں کی نماز کے بارے میں خاص ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں سے کسی ایک نماز کے لیے کوئی ایک حکم خاص ہو۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی ہیں ۔ ایسے ہی مناسب تھا کہ وہ یہ سوال کرتا کہ : جب اس نے شکار کیا تو کیا اسے اپنا حالت احرام میں ہونا یاد تھا یا پھر اسے بھول گیا تھا۔ اس لیے کہ بھولے ہوئے انسان پر حکم لگانے کے بارے میں جاہل سے زیادہ اختلاف ہے۔ انہیں تو یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا اس نے شکار اس وجہ سے کیا ہے کہ شکارنے اس پر حملہ کردیا تھا‘ اور وہ اپنے دفاع پر مجبور ہوگیا تھا ‘ یا پھر اس نے بغیر کسی وجہ کے شکار کر ڈالا ۔ نیز اس قسم کی تقسیم سے سائل کی جہالت ٹپکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ان ائمہ محترمین کو اس قسم کی جہالت سے مبراء رکھا تھا۔ نیز یہ سوال کرنا کہ : اس نے شکار حدود ِ حرم میں کیا ہے یا پھر حِلّ میں ؟بیکار سی بات ہے ۔ اس لیے کہ محرم جب شکار کر دے تو اس پر جزاء واجب ہوجاتی ہے ؛ خواہ اس نے حدود ِحرم کے اندر شکارکیا ہو یا اس سے باہر ۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور حرم کے جانور کا شکار کرنا حالت احرام میں اوربغیر احرام کے ہر دونوں طرح سے حرام ہے۔ لیکن جب کوئی انسان حالت احرام میں حرم کاشکار شکار کرلے تو اس کی حرمت زیادہ متأکد ہوجاتی ہے ؛ مگردونوں کی جزاء ایک ہی ہے۔نیزیہ سوال کرنا کہ اس نے شکار پر پہلی بار حملہ کیا ‘ یادوسری بار پلٹ کرمارا ؟ یہ بہت ہی کمزور اختلاف ہے۔بعض اہل علم نے اسے اختلاف سمجھا اورذکر کیا ہے ۔ جب کہ جمہور اہل علم ہر دونوں حالتوں میں شکار کرنے والے پر جزاء کو واجب کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ﴾ [المائدۃ۹۵] ’’اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا۔‘‘ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ : جو انسان اسلام لانے کے بعد دوبارہ ایسی حرکات کرے ؛ حالانکہ اس سے پہلے عہد جہالت کی غلطیوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا تھا۔ اوریہ بھی کہاگیا ہے کہ: اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مراد ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿وَ لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ﴾ [النساء۲۲] ’’اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے۔‘‘
Flag Counter