Maktaba Wahhabi

316 - 645
کی پرورش و تربیت کرے۔ نیز یہ بھی ضروری تھا کہ کوئی دوسرا شخص اس کے مال و متاع کی دیکھ بھال کرتا،یاتو یہ محافظ اس کا کوئی وصی ہوتا ؛ یا غیر وصی؛ پھر یا تو کوئی قریبی رشتہ دار ہوتا یا سلطان کی طرف سے کوئی نائب۔اس لیے کہ ایسا بچہ اپنا باپ مرجانے کی وجہ سے یتیم ہوگیا ہے۔اللہ تعالیٰ یتیم کے بارے میں فرماتے ہیں : ﴿وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْہَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا ﴾ (النساء۶] ’’اور یتیموں کو آزماتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں ، پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھداری معلوم کرو تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو اور فضول خرچی کرتے ہوئے اور اس سے جلدی کرتے ہوئے انھیں مت کھاؤ کہ وہ بڑے ہو جائیں گے۔‘‘ یہ جائز نہیں ہے کہ یتیم بچے کے بالغ و ہوشیار و سمجھدار ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے سپرد کردیا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ ایسا بچہ جوکہ اپنی جان و مال میں تصرفات کے اختیار سے محروم اور دوسروں کے زیر تربیت ہووہ پوری امت مسلمہ کا امام معصوم بن جائے؟اور کوئی انسان اس امام پرایمان رکھے بغیر مؤمن نہ ہوسکتا ہو؟ ۔ مزید برآں اگر ایسے امام کے وجودیا عدم وجود کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس سے کوئی دینی یا دنیوی مصلحت حاصل نہیں ہو سکتی ۔اور نہ ہی اس امام نے کسی ایک کو بھی کسی چیز کی کوئی تعلیم دی۔ اور نہ ہی اس کی کسی اچھی یا بری بات کا کسی کو کوئی اتا پتہ ہے ۔ اس امام کی وجہ سے مقاصد ومصالح امامت میں سے کسی بھی عام یا خاص کو کوئی بھی چیز حاصل نہیں ہوسکی۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ اگر ایسے امام کے وجود کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ تمام اہل ارض کے لیے بلامقصد اورنقصان دہ ہے ۔ اس لیے کہ اس امام پر ایمان لانے والوں کو تو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ نہ ہی کوئی مصلحت حاصل ہوئی اور نہ ہی کوئی مہربانی۔ اور اس امام کے جھٹلانے والے اس کے ماننے والوں کے نزدیک مبتلائے عذاب ہیں ۔ تو اس سے ثابت ہوا یہ کہ امام محض ایک شر و برائی ہے جس میں خیر کی کوئی ایک بات بھی نہیں ۔ ایسا امام کسی حکیم و عادل کی تخلیق نہیں ہوسکتا۔ اگریہ کہا جائے کہ وہ لوگوں کے ظلم کے خوف سے چھپ گیا تھا۔‘‘ [1]
Flag Counter