Maktaba Wahhabi

317 - 645
[جواب ]:ہم جواباً کہتے ہیں کہ:پہلی بات: ’’ ظلم تو اس کے آباؤ اجداد کے زمانہ میں بھی ہو رہا تھا، مگر انہوں نے چھپنے کو مناسب خیال نہ کیا۔[1] دوسری بات : مزید برآں اس کے عقیدت مند ہر جگہ کرۂ ارضی پر موجود ہیں ؛ توامام صاحب چلو بعض اوقات چند گھڑیوں کیلئے ہی اپنے ماننے والوں کے ساتھ مل کرکیوں نہیں بیٹھ جاتے۔یا پھر وہ اپنا کوئی ایلچی ان لوگوں کی طرف بھیجتا جو ان لوگوں کو کوئی نفع بخش علم کی باتیں سکھاتا۔ تیسری بات:....امام صاحب کے لیے ممکن تھا کہ وہ کسی ایسی جگہ ظہور پذیر ہو گیاہوتا، جہاں اس کے ارادت مند بکثرت ہوں ۔ جیسا کہ بلاد شام کے پہاڑ ؛جن میں کثرت کے ساتھ رافضی آباد ہیں ۔اور ان کے علاوہ بھی شیعہ کی کئی ایک مضبوط پناہ گاہیں اور بستیاں ہیں ۔ چوتھی بات:....جب امام صاحب کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس خوف کی وجہ سے کسی ایک انسان کوبھی علم یا دین کی کوئی فائدہ مند بات بتاسکے تو پھر اس امام کی وجہ سے کونسا فائدہ یا مصلحت حاصل ہوئی؟پس یہ بات نظریہ امامت کے بنیادی اصولوں کے ہی خلاف ہے؟بخلاف ان انبیاء کرام ومرسلین عظام رحمہم اللہ کے ‘جنہیں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ؛ انہیں جھٹلایا گیا‘ مگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں ‘اور رسالت کا حق اداکیا ۔ لوگوں کو اللہ کا دین پہنچایا اورسکھایااور ان پر ایمان لانے والوں کو فائدہ اور مصلحت بھی حاصل ہوئی؛ جو کہ ان اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام تھا۔جب کہ اس معدوم و موہوم؛ کبھی بھی نہ آنے والے امام کے ماننے والوں کو سوائے اس انتظار طویل اور حسرت و الم اور دنیا بھر کی دشمنی کے سوا کیا فائدہ پہنچا؟ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ شیعہ ساڑھے چار سو (۳۵۰) سال سے اس کے خروج و ظہور کی دعائیں کرتے چلے آرہے ہیں مگر ان کی دعائیں قبولیت سے ہم کنار نہیں ہوتیں [اورکبھی بھی قبول نہ ہوں گی] [2]
Flag Counter