Maktaba Wahhabi

322 - 645
نام سے مطابقت رکھتا تھا اورنہ ہی اس کے والد کانام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام سے مطابق تھا۔ اس کادعوی تھا کہ وہ محمد بن اسماعیل بن جعفر کی اولاد سے ہے۔ اور میمون ہی محمد بن اسماعیل ے۔ شجرہ نسب کے ماہرین اوردوسرے علماء کرام جانتے ہیں کہ اس کا نسب کا دعوی جھوٹ پر مبنی ہے۔ اوریہ کہ اس کا والد خود یہودی تھا جو کہ ایک مجوسی کا لے پالک تھا۔ اس لحاظ سے اس کی دو نسبتیں ہیں : ایک نسبت یہود کی طرف اور دوسری نسبت مجوس کی طرف ۔ عبیداللہ اور اس کے اہل خانہ ملحدین تھے۔ ان کا تعلق اسماعیلیہ فرقہ کے ائمہ میں سے ہوتا ہے؛ جن کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں : ’’ ان کا مذہب ظاہر میں رافضیت ہے ‘ اور باطن میں خالص کفر ہے ۔‘‘ ان کے اسرار اور خفیہ رازوں سے پردہ چاک کرنے کے لیے علماء کرام نے کئی ایک کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ جن میں ان کے نسب کے جھوٹ اوراسلام کے جھوٹے دعوی سے پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اوریہ کہ ان لوگوں کا دین اسلام یا نسب کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں ۔ عبیداللہ بن میمون قداح کا ظہور سن ۲۹۹ہجری میں ہوا۔ اورسن ۳۲۳ہجری میں ہلاک ہوگیا۔ پھر اس کے بعد اس کا بیٹا القائم اس کا جانشین بنا۔ پھر اس کے بعد اس کا بیٹا المنصور جانشین ہوا۔ پھر اس کے بعد اس کا بیٹا المعز؛ جس نے قاہرہ شہر کی تعمیر کی ۔ پھر اس کے بعد العزیز؛ اس کے بعد الحاکم ‘ پھر اس کا بیٹا الظاہر ؛ پھر اس کا بیٹا المستنصرجانشین بنا ۔ اس کی ولایت کا عرصہ بہت طویل رہا۔ اسی کے دور میں ’’ بساسیری ‘‘کا فتنہ بپا ہوا۔ بغداد میں ایک سال تک اس کے نام کا خطبہ دیا جاتا رہا۔ اور ابن الصباح جس نے اسماعیلیہ کے لیے چھری کی بدعت ایجاد کی وہ اسی مستنصر کے پیروکاروں میں سے تھا۔ سن پانچ سو اڑسٹھ ہجری میں دیار مصر [قاہرہ] میں ان لوگوں کی حکومت کا خاتمہ ہو ا۔ یہ لوگ دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک مصر پر غالب رہے۔ منافقت و ارتداد ا‘ الحاد اور اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی میں ان لوگوں کے واقعات و قصص سے علماء کرام اچھی طرح خبردار ہیں ۔ ابن ماجہ کی وہ حدیث جس میں ہے : ((لا مہدي إلا عیسیٰ ابن مریم)) [سنن ابن ماجۃ۲؍۱۳۳۰] ’’ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے علاوہ کوئی مہدی نہیں ۔‘‘ یہ حدیث ضعیف ہے۔ یہ حدیث یونس نے شافعی سے روایت کی ہے ‘ اور انہوں نے اسے یمن کے ایک مجہول شیخ سے روایت کیاہے۔اس سند کے ساتھ حجت قائم نہیں ہوتی۔یہ روایت امام شافعی کی مسند میں بھی موجود نہیں ۔بلکہ اس کا سارا دار و مدار یونس بن عبد الاعلی پرہے۔اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ : یونس نے یہ بھی کہا ہے : میرے سامنے امام شافعی سے حدیث بیان کی گئی۔’’خلیعات ‘‘ اور بعض دوسری کتابوں میں ہے : ہم سے یونس نے حدیث نے بیان کی وہ امام شافعی سے روایت کرتے ہیں ۔ یہ نہیں کہاکہ : ان سے شافعی نے حدیث بیان کی ۔ پھراس کے بعد کہا ہے : ’’ محمد بن خالد جندی کی روایت میں تدلیس پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی سند کمزور ہوجاتی ہے۔ اور بعض علماء کرام یہ بھی کہتے ہیں کہ :
Flag Counter