Maktaba Wahhabi

345 - 645
[جواب] :اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتاہے : پہلی بات: ....اس رافضی مصنف نے جو الزام لگائے ہیں ‘حقیقت میں خود روافض ان کے زیادہ اہل ہیں ۔ دوسری بات:....ائمہ اہل سنت والجماعت عند اللہ ان الزامات سے بالکل بری ہیں ۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے: ہم نہیں جانتے کہ کوئی فرقہ رافضیوں سے بڑھ کر باطل پر تعصب کرنے والا ہو۔ یہاں تک کہ باقی تمام فرقوں میں رافضی اپنے موافق کی خاطر جھوٹی گواہی دینے [اورجھوٹی قسم اٹھانے]میں مشہورو معروف ہیں ۔ تعصب میں جھوٹ سے بڑھ کر بڑا گناہ کوئی نہیں ہوتا ۔ ان کی حالت یہ ہے کہ: ۱۔ انہوں نے تعصب میں آکر تمام میراث کا وارث صف بیٹی کو ٹھہرایا ہے تاکہ یہ کہہ سکیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وارث صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی تھیں ؛ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اس میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ ۲۔ شیعہ میں بعض لوگ اونٹ کے گوشت کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں ۔ اس طرح یہ لوگ کتاب اللہ ‘ سنت رسول اللہ اور اجماع صحابہ کرام و اہل بیت کی مخالفت کے مرتکب ہوئے۔ یہ ایسی بات ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں تھی۔ اس لیے کہ وہ اونٹ جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سوار ہوئی تھیں وہ تو کبھی کا مرچکا۔ اگر بالفرض یہ کہہ لیا جائے کہ وہ اونٹ ابھی تک زندہ ہے ؛تو پھر بھی جب کفار کے اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے اس کی حرمت واجب نہیں ہوتی؛ اور کفار برابر اونٹ کی سواری کرتے چلے آرہے ہیں اور مسلمانوں کو ان سے یہ اونٹ مال غنیمت میں حاصل ہوتے ہیں اوران کا گوشت ان کے لیے حلال ہوتا ہے۔تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہونے میں وہ کونسی بات مضمر ہے جس کی وجہ سے اونٹ کا گوشت حرام قرار دیا جاتا ہے؟ اس کی انتہاء تو یہی ہوسکتی ہے کہ جن بعض لوگوں کو یہ رافضی کافرکہتے ہیں ؛ وہ اونٹ پر سوار ہوئے تھے۔ حالانکہ رافضی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت لگاتے ہیں ‘ اس میں وہ جھوٹے اور بہتان تراش ہیں ۔ ۳۔ ان کے تعصب کی حد یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی زبان پر ’’دس ‘‘ کا لفظ نہیں لاتے۔ بلکہ یوں کہتے ہیں :نو اور ایک۔اور جب ستون وغیرہ بناتے ہیں تو خصوصی خیال رکھتے ہیں کہ ان کی تعداد دس نہ بنے۔ایسے ہی بہت سارے دیگر امور میں بھی اس چیز کا خصوصی خیال رکھتے ہیں ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سارے دس کا لفظ ذکرکیا ہے۔[ بلکہ بہت سارے مواقع پر اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’ دس ‘‘ کے مسمیٰ کی تعریف کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ حج تمتع کے بارے میں فرماتے ہیں ]: ﴿فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ﴾ (البقرۃ۱۹۶) ’’تو تین روزے تو ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر، یہ کل دس روزے ہو جائیں گے۔‘‘ اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : ﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّ عَشْرًا﴾ [البقرۃ۲۳۳]
Flag Counter