Maktaba Wahhabi

346 - 645
’’تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ ﴾ (الاعراف ۱۳۲] ’’ہم نے موسی علیہ السلام کو تیس شب و روز کے لیے(کوہِ سینا پر)طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَالْفَجْرِ oوَلَیَالٍ عَشْرٍ﴾ (الفجر۱۔۲] اور قسم ہے فجر کے وقت کی ‘ اور دس راتوں کی ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’ دس ‘‘ کے مسمیٰ کاقابل مدح و تعریف مواقع پر کیا ہے۔جب کہ لفظ ’’ نو ‘‘ کے مسمی کا ذکر قابل مذمت موقع پر کیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں ؛ ﴿وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ﴾ (النمل۳۸) ’’اس شہر میں نو جھتے دار تھے جو ملک میں فسا پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔‘‘ لیلۃ القدرکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔‘‘[1] صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی آخری دس راتیں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔‘‘[ البخاری (۳؍۳۷)مسلم (۲؍۸۳۰)] صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کے بارے میں ]ارشاد فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی بھی عمل ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں ۔ ‘‘[2] جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عدد ’’دس ‘‘کے ساتھ کلام کیا ہے ‘ اور اس کے ساتھ بہت سارے محمود احکام شرعیہ کو معلق کیا ہے تو پھران لوگوں کا لفظ ’’دس ‘‘سے عشرہ مبشرہ کی اصطلاح وجہ سے نفرت رکھنا ؛کیونکہ ان سے یہ لوگ بغض رکھتے ہیں ؛ انتہائی جہالت اور تعصب کی نشانی ہے۔ پھر ان لوگوں کا یوں کہنا :’’ نو اور ایک ‘‘ عبارت کی طوالت کے ساتھ دس کا یہی معنی ہے۔ جب نو یا دس یا سات کا لفظ اس عدد کے ساتھ معدود ہر چیز پر واقع ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق انسانوں سے ہو یا پھر چوپاؤں سے یا پھر لباس اور درہم و
Flag Counter