Maktaba Wahhabi

394 - 645
﴿وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ (البقرۃ ۲۷۵] ’’اور اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے؛ اور سود کو حرام ۔‘‘ یہاں پر تجارت اور سود میں فرق بتانا مقصود ہے۔ یہ کہ ان میں سے ایک میں حرام ہے اور دوسرا حلال۔ یہاں پر یہ بیان مقصود نہیں کہ کس چیز کی تجارت جائز ہے اور کس کی ناجائز ۔ پس اس آیت کے عموم سے ہر ایک چیز کے بیچنے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ اورجس کسی کا خیال یہ ہو کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے‘‘ یہ حکم مردار ؛ خنزیر اور شراب اور کتے ؛ اور لونڈی اور وقف اور دوسرے کی ملکیت ؛ اور پھلوں کی پکنے سے پہلے کی خرید و فروخت کو شامل ہے؛ تو یقیناً وہ غلطی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ آٹھویں وجہ :....اس سے کہا جائے گا : تصور کیجیے ! اس آیت کے الفاظ عام ہیں ۔ اوراس میں سے کسی کافر بیٹے ؛ یا غلام یا قاتل کوایسے دلائل سے خاص کیا گیا ہے جو ان دلائل سے کمزور تر ہیں جن کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کے عموم سے خارج کیا گیا ہے ۔اس لیے کہ جن صحابہ کرام نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے کہ : آپ وراثت نہیں چھوڑتے۔‘‘ وہ ان صحابہ سے زیادہ جلیل القدر اہل علم اور کثرت کے ساتھ ہیں جنہوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں بنے گا۔یا قاتل کو میراث نہیں ملے گی ۔ اوریہ کہ جوکوئی اپنے غلام کو فروخت کرے ؛ اور اس غلام کا کچھ مال بھی ہو‘ تووہ مال بیچنے والے کا ہوگا سوائے اس صورت کے کہ خریدنے والا اس مال کی شرط بھی لگائے ۔ خلاصہ کلام ! جب یہ آیت کسی نص سے یا اجماع سے مخصوص ہے تو پھر کسی دوسری نص سے اس کی تخصیص کرنا باتفاق مسلمین جائز ہے۔بلکہ علمائے کرام رحمہم اللہ کے ایک گروہ کا نکتہء نظر یہ ہے کہ عام مخصوص مجمل ہی باقی رہے گا۔ عموم قرآن جب کہ خبر واحد سے مخصص نہ ہو تواس کی تخصیص کی بابت علماء کا اختلاف ہے۔ جب کہ عامِ مخصوص کی تخصیص عام خبر واحد سے کی جاسکتی ہے؛ خصوصاً ایسی خبر جسے قبول عام حاصل ہو۔ بلاشک وہ شبہ وہ اس سے عموم قرآن کی تخصیص پر متفق ہیں ۔ ٭ اس خبر کو صحابہ کرام میں قبول عام حاصل رہا ہے؛ اور اس پر عمل کرنے پر ان کا اجماع ہے۔ جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ ۔ ٭ مستفیض نصوص اور اجماع سے تخصیص متفق علیہ مسئلہ ہے۔ جو لوگ اس مسلک پر چلتے ہیں وہ کہتے ہیں : ظاہر آیت عموم کا فائدہ دیتی ہے؛ لیکن یہ عموم مخصوص ہے۔ اور جو حضرات پہلے مسلک پر عمل پیرا ہیں ؛ وہ اس عموم کے ظہور کو صرف ان لوگوں تک تسلیم کرتے ہیں جن کے بارے میں علم ہو کہ وہ وارث بنیں گے۔ اور یہ نہیں کیا جائے گا کہ: اس کا ظاہر متروک ہے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں : یہاں پر مقصود صرف وارث کے حصے کا بیان ہے۔ اس حال کا بیان نہیں جس میں وراثت ثابت ہوگی۔ پس آیت مرنے والوں کے ورثاء اولاد میں عام ہے ؛اور موروثین میں مطلق۔ جب کہ اس آیت میں وراثت کی شروط سے تعرض نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ آیت میں مطلق ہیں ؛ نہ ہی اس میں نفی کی دلیل ہے اور نہ ہی اثبات کی ۔جیسا کہ حکم ربانی ہے:
Flag Counter