Maktaba Wahhabi

395 - 645
﴿ُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْہُمْ﴾ (التوبۃ ۵] ’’مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ ؛ انہیں قتل کر ڈالو ۔‘‘ یہ حکم ربانی اشخاص میں عام ہے: اور جگہ اور احوال میں مطلق ہے۔ پس جو خطاب اس مطلق کو مقید کرنے والا ہوگا؛ وہ اس شرعی حکم کے بیان سے شروع ہوگا جس سے پہلے کوئی ایسی چیز نہ گزری ہو جو اس کے منافی ہو۔ اور نہ ہی اس ظاہری خطاب شرعی کو ختم کرنے والا اور اس اصل کا مخالف ہو۔ نویں وجہ :....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وراثت نہ چھوڑنا قطعی دوٹوک سنت اور اجماع صحابہ سے ثابت ہے۔ سنت اور اجماع میں سے ہر ایک دلیل قطعی ہے ۔اس کا مقابلہ کسی ایسی روایت سے نہیں کیا جاسکتا جس کے عام ہونے کے بارے میں گمان کیا جاتا ہو ۔ اگرایسا کوئی عموم ہو بھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ مخصوص ہے۔ اور اگر اسے دلیل تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ دلیل ظنی ہوگی۔ دلیل قطعی کو دلیل ظنی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت کوکئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مختلف اوقات اور مختلف مجالس میں بیان کیا ہے۔ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس کا انکار کیا ہو۔ بلکہ ہر ایک نے اسے مانااور اس کی تصدیق کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی ایک نے بھی میراث حاصل کرنے کے لیے اصرار نہیں کیا ۔ اور نہ ہی آپ کے چچا محترم [حضرت عباس رضی اللہ عنہ ] نے میراث کے لیے اصرار کیا ۔ بلکہ ان میں سے اگر کسی نے ایسا کو ئی مطالبہ کیا بھی تواسے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی خبر دی گئی تو انہوں نے اپنے مطالبہ سے رجوع کرلیا ۔ یہ معاملہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے مبارک عہد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور تک ایسے ہی رہا ۔اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کی گئی اور نہ ہی آپ کا ترکہ تقسیم کیا گیا ۔ [[صحابہ اس بات پر یقین رکھتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس ضمن میں پیش پیش تھے....کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث کوئی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جب منصب خلافت پر فائز ہوئے، تو انہوں نے آپ کے ترکہ کو تقسیم کیا نہ اس کے مصرف میں کوئی تبدیلی پیدا کی۔ آیت میراث کے عموم سے آپ کی وراثت پر استدلال کرنا اس لیے صحیح نہیں کہ انبیاء کی وراثت اس سے مستثنیٰ ہے، جس طرح یہ مسائل استثنائی حیثیت رکھتے ہیں ، کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا اور قتل عمد کا مرتکب ورثہ سے محروم رہتا ہے، نیز یہ کہ غلام وارث نہیں ہوتا]] دسویں وجہ :....یہ امر قابل غور ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے متعلقین کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے کئی گنا زائد مال دے دیا تھا۔ اس کے پہلو بہ پہلو یہ بات بھی فراموش کرنے کے قابل نہیں کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے خود اس مال سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا؛ بلکہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا متروکہ مال حضرت علی رضی اللہ عنہ و عباس رضی اللہ عنہ کو اس مقصد کے پیش نظر دے دیا تھا کہ وہ اسے انہی مصارف میں خرچ کریں جن میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے [1]اس سے اس تہمت کا ازالہ ہوجاتا ہے جو ان دونوں اکابر پر عائد کی جاتی ہے۔
Flag Counter