Maktaba Wahhabi

440 - 645
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا تھا: ((لکل نبی حواري و حواري الزبیر۔))[1] ’’ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے ‘ اور میرا حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہے ۔‘‘ اور جیسا کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان قبول کیا اور نقل کیا ہے: ’’ لأعطین الرایۃ غداً رجلاً یحب اللّٰہ و رسولہ و یحبہ اللّٰہ و رسولہ ۔‘‘[2] ’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ چادر والی حدیث جس میں آپ نے حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم کیلئے فرمایا تھا: ’’یا اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ان سے پلیدی کو دور کردے ‘ اور انہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘ [3] ان کے علاوہ ایسی دیگر بھی کئی ایک روایات ہیں ۔ چوتھی بات :....ان دونوں روایتوں میں سے ہر ایک کا جھوٹ اور باطل ہونا صاف ظاہر ہے ۔ ان روایات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ۔اس لیے کہ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کے فاروق ِامت ہونے سے کیامراد ہے ؟کیا حق و باطل میں فرق کرنا مراد ہے ؟ اگر اس سے مراد یہی ہو کہ اس سے اہل حق اور اہل باطل کے درمیان امتیاز ہوتا ہے ؛ اور مؤمنین اور منافقین میں فرق ہوتا ہے ؛ تو یہ ایسا معاملہ ہے جس پر انسانوں میں سے کسی ایک کا بس نہیں چلتا۔ نہ ہی کسی نبی کا نہ ہی کسی دوسرے کا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ﴾ [التوبۃ۱۰۱] ’’ اور ان لوگوں میں سے جو تمھارے ارد گرد دیہاتیوں میں سے ہیں ، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں ، آپ انھیں نہیں جانتے، ہم ہی انھیں جانتے ہیں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اہل مدینہ میں سے اور مدینہ کے گردونواح کے منافقین میں سے ہر ایک کو متعین طور پر نہیں جانتے تھے ؛ تو پھر کوئی دوسرا کیسے جان سکتا ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ : آپ اہل حق او راہل باطل کی صفات بیان کیا کرتے تھے؛ تو یقیناً قرآن میں مجید میں اس کا کافی
Flag Counter